میڈیا کمیشن کیس،مریم اورنگزیب کا نام کمیٹی سےنکال دیاگیا
اسلام آباد : میڈیا کمیشن کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے پیمرا چیئرمین کے انتخاب کیلئے بنائی گئی سرچ کمیٹی کی تشکیل نو کرتے ہوئے مریم اورنگزیب کو کمیٹی سے نکال دیا، جب کہ سیکریٹری اطلاعات کو کمیٹی میں شامل کرلیا۔ اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی شیر کو میں نہیں جانتا،اصل شیر عدالتوں میں بیٹھے ہیں۔
میڈیا کمیشن کیس کی سپریم کورٹ آف پاکستان میں سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار ریمارکس دیتے ہوئے مزید کہا کہ کسی نے فیصل رضاعابدی کاانٹرویودیکھا ہے؟سپریم کورٹ کےباہرعدلیہ مردہ باد کے نعرے لگے،ابھی صبراور تحمل سے کام لے رہے ہیں،غیرت ہوتی تو خود سامنے آتے۔
سپریم کورٹ میں میڈیا کمیشن کیس کے دوران چیف جسٹس نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 2روز قبل جب ہم نے آرٹیکل 62ون ایف کا فیصلہ سنایا، عدالت کے باہر نعرے لگائے گئے،یہاں عدلیہ مردہ باد کے نعرے لگائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیا یہ میڈیا کی ذمے داری ہے؟اتنا احترام ضرور کریں جتنا کسی بڑے کا کیا جانا چاہیے، کسی کی تذلیل مقصود نہیں،نااہلی کیس کے بعد ہی نعرے لگے،خواتین کوشیلٹر کے طور پر سامنے لےآتے ہیں۔
اس موقع پر جسٹس شیخ عظمت سعیدکا کہنا ہے کہ بات زبان سے بڑھ گئی ہے،میڈیاکی آزادی عدلیہ سے مشروط ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پیمرا قانون میں ترمیم کے حوالے سے کیا، کیا گیا ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل راناوقار نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ حکومت نے 7رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے، وزیراعظم کی منظوری سے کمیشن کی تشکیل کی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کمیشن میں نمایاں صحافی اورپی بی اے کے چیئرمین کو شامل کیا گیا ہے، کمیشن چیئرمین پیمرا کے لیے 3ممبران کے پینل کا انتخاب کرے گا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کام ہوتے ہوتے تو بہت وقت لگ جائے گا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل راناوقار نے انہیں بتایا کہ یہ کام 3ہفتوں کے اندر ہوجائے گا۔
عدالت نے پیمراچیئرمین کے انتخاب کے لیے سرچ کمیٹی کی تشکیل نو کرتے ہوئے مریم اورنگزیب کو کمیٹی سے نکال دیا جبکہ سیکرٹری اطلاعات کو کمیٹی میں شامل کرلیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مریم اورنگزیب بیانات دینے میں مصروف ہوں گی،ان کے لیےکمیٹی کے لیے وقت نکالنا ممکن نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ عدلیہ کمزور ہوگی تو میڈیا کمزور ہوگا،اگر ہماری بات ٹھیک نہیں توبولنا بھی بند کردیں گے، قانون سازوں کوقانون میں ترمیم کے لیے تجویز نہیں کر سکتے،پارلیمنٹ آرٹیکل 5 میں ترمیم نہ کرے تو کیا کریں؟ جسٹس عظمت سعید کا کہنا ہے کہ قانون کو کالعدم قرار دیا تو خلا پیدا ہوگا۔ حامد میر کے وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 5 کے اطلاق کی گائیڈ لائن ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 5 اور6 آئین کےآرٹیکل 19 سے مطابقت نہیں رکھتے،لگتا ہے حکومت کو کوئی خوف نہیں،حکومت کا پیمرا پر کنٹرول ختم کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کام میرا کھولا ہوا نہیں لیکن بند کر کے جاؤں گا،حکومت پر کوئی تلوار نہیں ہے لیکن یہ کام ہونا چاہیے۔ حامد میر کے وکیل نے یہ بھی کہا کہ حکومت کےآرٹیکل5 کےاختیار کو پیمرا کی رضامندی سے مشروط کردیں۔ ایک موقع پر چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ لالوپرشاد کانام لیا، اس حوالے سے میری معلومات غلط تھیں، لالوپرشاد لاء گریجویٹ ہیں۔