رقصاں جمہوریت اور اِدارے

خوبصورت پیکنگ میں ایک جنس فروخت کی جاتی رہی ہے "جمہوریت"۔ نرخ متوازن سے ہیں ۔ مگر کبھی کبھار تھوڑا بہت اُتار چڑھاؤ دیکھنے میں ضرور آتا ہے۔ کبھی خریدار دونوں ہاتھوں میں دام لیے بھاگے پھرتے ہیں کبھی خریدار ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہر دور میں جمہوریت ایک فائدہ مند کاروبار رہا ہے۔ اور اس کے کاروبار میں شامل افراد دونوں ہاتھوں سے منافع سمیٹتے رہے ہیں۔ جمہوریت کی خوبصورت پیکنگ میں ایک خوبصورت اور دل کو لبھانے والا جملہ تحریر ہوتا ہے "اداروں کی مضبوطی کے لیے جمہوریت نہایت ضروری ہے"۔ اور اس جملے کے حُسن میں ایک لمحے کو انسان کھو سا جاتا ہے اور پیکنگ کھول کے دیکھتا ضرور ہے یہ الگ بات ہے کہ پیکنگ کھلنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ پیکنگ کے اندر کچھ اور ہے۔

پارلیمان، عدلیہ، فوج، سول سروس، خدمات اور دیگر بہت سے اداروں کی مضبوطی کو جمہوریت کے ساتھ نہ صرف منسلک کیا جاتا ہے بلکہ اس کے حق میں دلائل کے انبار بھی لگائے جاتے ہیں۔ عام پاکستانی کے نزدیک اس حقیقت سے انکار ممکن بھی نہیں کہ جمہوریت اداروں کی مضبوطی کے لیے نہایت ضروری ہے مگر حقیقی جمہوریت میں ایک عام شہری سے بڑھ کے صاحبانِ اقتدار و اختیار کا فریضہ ہوتا ہے کہ وہ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ایسے اقدامات کریں کہ عملی طور پہ نظر آسکیں۔شہری تو یقین رکھتے ہیں کہ اداروں کی مضبوطی جمہوریت میں پنہاں ہے مگر کیا ہمارے حکمران اس پہ یقین رکھتے ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو یقیناًڈان لیکس کی وجہ سے دو اہم ترین اداروں کا آپس میں سرد مہری کا واقعہ یقیناًکسی دور کے افریقی ملک میں پیش آیا ہو گا۔ اگر صاحبانِ اقتدار واقعی جمہوریت کو اداروں اور ملک کی مضبوطی کے لیے اچھا شگون سمجھتے ہیں تو پھر کوئی شک نہیں کہ عدلیہ کے ساتھ بحران پھر کسی غیر معروف ملک کا ہی ہو گا جس کی خبریں ہم آئے روز سنتے آ رہے ہیں۔

اگر پاکستان کی ترقی جمہوریت میں پوشیدہ ہے تو پھر کیوں حکومت اور عدلیہ میں ایک غیر اعلانیہ جنگ کی سی صورت حال ہے۔ کیوں ایک جمہوری وزیر اعظم اعلیٰ عدلیہ کے سربراہ کے ساتھ اپنی ملاقات کو بھی سیاست کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اگر واقعی جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے پاکستان میں تو فوج اور سول حکومت دن بدن کیوں بڑھتی تلخیوں کی خلیج وسیع کرتے جا رہے ہیں۔ شک نہیں کہ جمہوریت نے دنیا میں اپنا لوہا منوایا ہے ، ممالک نے ترقی کی ہے لیکن اگر وہی جمہوریت ہمارے ہاں بھی نافذ العمل ہے تو کیوں ایک جمہوری ادارے سینٹ کا چیئرمین ایک منتخب وزیر اعظم کی سرد مہری کا شکار ہے کہ وہ اس سے ملاقات تک کرنے کے خواہاں نہیں۔ کل کلاں اگر صدر محترم ملک میں نہ ہوئے اور یہی چیئرمین سینٹ قائمقام صدر بن گئے تو تب ہمارے وزیر اعظم صاحب کیا انہیں اپنا صدر بھی ماننے سے انکاری ہو جائیں گے؟اور کیا اب ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا جوبطور مجموعی اہم ترین جمہوری ادارے پارلیمان کی تشکیل کرتے ہیں وہ الگ الگ رخ پہ کام کریں گے؟ جمہوریت میں صوبے وفاق کی اکائیاں ہیں، مگر یہ جمہوریت کی کون سی ادا ہے کہ وفاقی حکومت رکھنے والی پارٹی دو صوبائی حکومتوں کے مکمل طور پر کھل کر مخالفت میں سامنے ہے۔ کیا بلوچستان میں ان ہاؤس تبدیلی جمہوری نہیں؟ کیا سینٹ میں تبدیلی جمہوری نہیں؟ یا تو آپ مانیے کہ آپ بھی مفادات کی جنگ کا حصہ رہے ہیں کہ جس کو اب دوسروں نے اپنا وطیرہ بنا لیا ہے لیکن اگر آپ کے اقدامات جمہوریت کی خدمت تھے تو اب مخالفین کے کم و بیش ویسے ہی اقدامات کیسے جمہوریت کی نفی ہو گئے۔۔

ایک عام پاکستان یقیناًپاکستان میں جمہوریت کو پنپنے دیکھنا چاہتا ہے مگر حقیقی جمہوریت کو، نہ کے حکمرانوں کے گھر کی باندی جمہوریت کو۔ جمہوریت ایک فلاحی نظام حکومت تو ہے مگر ایک عام آدمی کو فائدہ پہنچاتی جمہورت نہ کہ ایسی جمہوریت جس میں وزیر اعظم سزایافتہ افراد کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہو۔ جمہوریت یقیناًپاکستان کی ترقی کی ضمانت ہے مگر ایسی جمہوریت جو تمام اداروں کے درمیان آئینی و جمہوری رابطہ احسن طریقے سے قائم رکھے نہ کے ایسی جمہوریت جس میں تمام ادارے باہم دست و گریباں ہوں، اور جمہوریت کو صرف اقتدار سے چمٹے رہنے کی کنجی سمجھ لیا جائے۔ حقیقی جمہوریت جس میں تمام اداروں کے درمیان مثبت رابطہ استوار ہو، جس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ رہے ہوں، عوام کا معیار زندگی بلند ہو رہا ہے کسی بھی ملک کی ترقی کی ضامن ہے مگر جہاں جمہوریت اشرافیہ کے لیے سائرن بجاتی گاڑیوں، مراعات لینے کا نظام، اور اپنی اولاد کو بھی اقتدار کی کرسی تک لے جانے کی سعی رہ جائے وہ جمہوریت ایک گلے سڑے پھل کی طرح ہے جس کے پاس سے بھی سب ناک پہ رومال رکھ کے گزرتے ہیں۔

ELECTION

SENATE

Politics

khaqan Abbasi

Tabool ads will show in this div