ماحولیاتی تبدیلیاں؛ کیا پاکستان سامنا کرنے کیلئے تیار ہے؟
بلاگر: فرحین آمنہ فرید
تیزی سے ہونےوالی ماحولیاتی تبدیلیوں نے دنیا بھر میں تباہی مچائی ہوئی ہے ۔ کہیں شدید سردی کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں تو کہیں گرمی کہ۔ جیسے جیسے کرہ ارض گرم ہوتا جائےگا ویسے ویسے ہی زمین پر زندگی کم ہوتی جائے گی اور یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت عالمی سطح پرماحولیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ کے اقدامات کے لیے تمام ممالک منصوبہ بندی کی کوشش کررہے ہیں۔
پاکستان بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے اور گزشتہ دس برسوں میں بدترین سیلابوں، طوفانوں، بارشوں، ہیٹ اسٹروک سمیت کئی قدرتی آفات کا سامنا کرچکا ہے۔ جبکہ ايچ ايس بی سی بينک کی جانب سے پاکستان کو ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا دوسرا ملک قرار دیا گیا ہے۔
ایچ ایس بی سی کی رپورٹ میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے دوچار ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے۔ جس کے مطابق بھارت پہلے جبکہ پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔ جو یقینا ایک ہولناک اور تشویشناک بات ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے متعلقہ ادارے مستقبل قریب میں آنے والی ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں؟۔
حال ہی میں ملک کے دارالحکومت اسلام آباد کے اہم پہاڑی سلسلے '' مارگلہ ہلز'' میں شدید گرمی کے باعث آگ بھڑک اٹھی تھی جس کو 24 سے 36 گھنٹوں بعد بجھایا جاسکا۔ لیکن یہ آنے والے موسم کے لیے خطرات کی ایک جھلک تھی کیونکہ ابھی گرمی کا آغاز ہی ہوا ہے اور درجہ حرارت ابھی 40 سے 42 درجے سینٹی گریڈ کے درمیان ہے۔ اس وقت یوں آگ کا بھڑک جانا لمحہ فکریہ ہے۔
ایک طرف ''مارگلہ ہلز'' میں دوبارہ آگ بھڑک اٹھنے کا خدشہ ہے تو دوسری جانب ملک کے سب سے بڑے شہر اور معاشی حب کراچی میں بدترین گرمی اور ہیٹ اسٹروک کا امکان ظاہر کیا جاچکا ہے لیکن حکومت کی جانب سے بچاؤ کے کوئی اقدامات یا منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی۔ قابل غورامر یہ ہے کہ اگر ہم ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کا سامنا کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں تو مزید ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا کیسے کریں گے۔ کیا ہمارے پاس کوئی پلان موجود ہے؟۔
رواں برس بھی پیش گوئی کی جاچکی ہے کہ پاکستان کو بدترین سیلابوں، طوفانوں اور بارشوں سمیت شدید گرمی اور سردی کاسامنا کرنا پڑسکتا ہے لیکن اس حوالے سے حکومت کی جانب سے کوئی حکمت عملی نظرنہیں آتی۔
گزشتہ دنوں کیے گئے سروے میں بھی پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے محفوظ رہنے یا ان سے نمٹنے کے لیے کم صلاحیت کا حامل بتایا گیا ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔
گزشتہ 10 سالوں میں سطح سمندر میں مسلسل اضافے، شدید گرمی و سردی اور گلیشر پگھلنے سے پہلے ہی ملک کو بدترین جانی و مالی نقصانات کا سامنا رہا ہے۔ جبکہ گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل سیلابوں اور سطح سمندر میں اضافے کے باعث کئی ساحلی اور دیہی علاقے سمندر اور سیلابوں کی نذر ہوچکے ہیں اور بات یہاں ہی ختم نہیں ہوجاتی بلکہ سطح سمندر میں ہونےوالے مسلسل اضافے نے انڈس ڈیلٹا کا وجود بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ان علاقوں کی آبادی سخت مشکلات کا شکار ہے اور اگر اس حوالے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے تو آنے والے دنوں میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیاں حالات کو مزید سنگین بنا دیں گی۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کے متعلقہ ادارے خواب خرگوش کے مزے لینے میں مصروف ہیں جبکہ عوام کے تحفظ کے دعوے کرنے والے سیاسی رہنما ایک دوسرے پر تنقید یا جواب تنقید میں مصروف ہیں۔ کسی کو ہوش نہیں کہ آنے والی ماحولیاتی تبدیلیاں اس ملک کے لیے کتنی خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔