موہن جو دڑو اور بھٹو کا شہر لاڑکانہ
تحریر: نازیہ فہیم
دوست کی شادی میں فیملی کے ساتھ لاڑکانہ جانا ہوا۔ تین روز لاڑکانہ میں قیام کیا اور شادی کی تمام رسومات میں شریک ہوئی۔ ملک کی سیاسی صورتحال کی طرح لاڑکانہ شہر کا موسم بھی کافی گرم تھا۔ میرا دوستوں کے ہمراہ موہن جو دڑو جانے کا پلان بنا۔ موہن جو دڑو دیکھ کر ایسا لگا جیسے سندھ کے کسی گاؤں میں آگئی ہوں۔ لاڑکانہ جانے سے پہلے میں سوچ رہی تھی کہ جس طرح مسلم لیگ ن نے پورے پنجاب کو چھوڑ کر سارا ترقیاتی کام لاہور میں کروایا ہے اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی سارا ترقیاتی فنڈ لاڑکانہ میں لگا دیا ہوگا لیکن جب لاڑکانہ پہنچی تو ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے آبائی شہر کی صورتحال بھی سندھ کے دیگر اضلاع کی طرح بدتر دیکھی۔ میں نے موہن جو دڑو اور لاڑکانہ کی حالت میں کوئی فرق نہیں دیکھا، میرا کہنے کا مطلب ہے کہ پورے صوبے کی طرح لاڑکانہ بھی موہن جو دڑو کا منظر پیش کر رہا تھا۔
لاڑکانہ میں مبینہ 90 ارب روپے کی کرپشن کا قصہ تو بہت مشہور ہے۔ اس معاملے میں عدالت نے لاڑکانہ سے منتخب ہونے والی رکن قومی اسمبلی اور پیپلز پارٹی کی اہم ترین رہنما فریال تالپور کو نوٹس بھی بھیجا تھا۔ مجھے لگتا تھا 90 ارب روپے کی کرپشن کا الزام لگا ہے تو لاڑکانہ میں اربوں روپے کے ترقیاتی کام بھی ہوئے ہونگے مگر جب شہر گھومنے نکلی تو سوائے بھٹو کے مزار کے کوئی بھی چیز بہتر حالت میں نہیں دیکھی۔ لاڑکانہ کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں دیکھ کر میں سوچ میں پڑ گئی کہ اربوں روپے کے پروجیکٹ اور ترقیاتی فنڈ گئے کہاں؟ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2008 سے 2018 کے طویل عرصے کے دوران لاڑکانہ میں صرف ایک پل بنایا جس کی کوالٹی کا معیار تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ لاڑکانہ میں کوئی ترقیاتی کام نظر نہیں آیا۔ میری طرح آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اربوں روپے کی رقم کہاں گئی؟ سمجھ سے بالاتر ہے کہ لاڑکانہ شہر کا اربوں روپے کا ترقیاتی فنڈ زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔
میں گڑھی خدا بخش بھٹو پہنچی اور بھٹو خاندان کے آبائی قبرستان پر دعا فاتحہ بھی کی۔ مزار کو دیکھ کر ایسا لگا جیسا لاڑکانہ کا سارا فنڈ مزار پر لگا دیا ہو۔ بھٹو کا مزار باہر سے ایسے دکھ رہا تھا جیسے آگرہ کا تاج محل۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے بھٹو خاندان کے مزار پر کروڑوں روپے لگا دیئے گئے مگر مزار کے ساتھ ہی گاؤں کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو گندی حالت میں دیکھ کر انتہائی دکھ ہوا۔ مزار پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بجائے لاڑکانہ کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے تو ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی روح کو سکون ملے گا۔ سیاسی حوالے سے میں زیادہ تو نہیں جانتی مگر جتنا میں نے ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی شخصیت کو سمجھا ہے وہ دونوں عوامی لیڈر تھے اور عوام کے لئے ہی سیاست کرتے تھے مگر آج انکی پارٹی دس سال سے سندھ پر حکمرانی کے باوجود صوبے کے عوام کو تو درکنار گڑھی خدا بخش میں قائم بھٹو خاندان کے مزار کے ارد گرد بسنے والے لوگوں کو بھی بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ جس طرح مسلم لیگ ن نے لاہور میں بے شمار ترقیاتی کام کروائے ہیں، پیپلز پارٹی کو بھی لاڑکانہ میں بےشمار ترقیاتی کام کرنے چاہئے تھے اور لاڑکانہ کو مثالی شہر بنانا چاہئے تھا کیونکہ لاڑکانہ دو سابق وزرائے اعظم پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی کی شہید چیئرپرسن بینظیر بھٹو کا شہر ہے۔ پیپلز پارٹی لاڑکانہ مثالی شہر تو نا بنا سکی لیکن لاڑکانہ کی کرپشن کے قصے ایک مثال بن گئے ہیں۔ لاڑکانہ میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات ہونی چاہئے تاکہ بھٹو کے شہر کے فنڈ میں خردبرد کرنے والوں کو قرار واقعی سزا مل سکے۔