دورِ حاضر کا آئین سٹائن
تحریر: فرحان سعید
زندگی ایک بار ملتی ہے لیکن یہ انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ زندگی کی رعنائیوں کو دیکھتے ہوئے اسکے اسرار و رموز سے پردہ اٹھائے اور انسانی فلاح کیلئے کام کرے یا پھر مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کھو کر اپنے اوپر زندگی کے دروازوں کو بند کرلے۔ ایسی ہی ایک مثال جس نے انتہائی عجیب و غریب بیماری کے باوجود نہایت پرعزم اور پر اعتماد رہتے ہوئے نہ صرف بیماری کا دلیرانہ مقابلہ کیا بلکہ سائینس کے شعبے میں انتہائی اہم کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔ لیکن افسوس صد افسوس کے وہ 14 مارچ کو 76 سال کی عمر میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے اور دنیا دور حاضر کے آئین سٹائن سے محروم ہوگئی۔
اسٹیفن ولیم ہاکنگ جو 8 جنوری 1942ء کو آکسفورڈ برطانیہ میں پیدا ہوئے۔ ہاکنگ نے ابتدائی تعلیم سینٹ البنز کے ایک اسکول سے حاصل کی۔ اسکول اور کالج کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسٹفن ہاکنگ کیمبرج یونیورسٹی چلے گئے۔ اسٹیفن ہاکنگ جب کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے تھے کہ ایک دن سیڑھیوں سے پھسل گئے اور پھر طبی معائنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ ایک عجیب و غریب بیماری ’’موٹر نیوران ڈزیز‘‘ میں مبتلا ہیں۔ جس میں وہ اپنے جسم کے کسی اعضاء کو حرکت نہیں دے سکتے اور اس طرح وہ زندہ لاش بن کر رہ گئے۔ طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ وہ بہت جلد زندگی کی بازی ہار جائیں گے۔ یہ وہ وقت تھا جب اسٹیفن مایوسیوں میں کھو کر موت کو گلے لگا لیتے لیکن انہوں نے ہار نہ مانتے ہوئے اپنے عزائم کو پورا کرنے کا ارادہ کیا اور موت کو بھی شکست دے دی اور وہیل چئیر پر آگئے۔ کیمبرج کے سائبر ماہرین نے ہاکنگ کیلئے ’’ٹاکنگ‘‘ کمپیوٹر ایجاد کیا۔ کمپیوٹر ویل چیئر پر لگا دیا گیا، یہ کمپیوٹر ہاکنگ کی پلکوں کی زبان سمجھ لیتا تھا، اسٹیفن اپنے خیالات پلکوں سے کمپیوٹر پر منتقل کرتے۔ پلکیں ہلتیں خاص ردھم سے اور کمپیوٹر کی اسکرین پر لفظ ٹائپ کرتی جاتی، اور ساتھ ساتھ اسپیکر سے یہ الفاظ نشر بھی ہوتے جاتے تھے۔ انہوں نے آئین سٹائین کے پیچیدہ نظریات پر کام کرنا شروع کیا اور بلیک ہولز دریافت کیے جن میں سے ریڈیشن نکلتی ہیں جن کو ان کے نام کی مناسبت سے ’’ہاکنگ ریڈیشن‘‘ کہا گیا۔ 1979ء سے 2009ء تک ہاکنگ کیمبرج یونیورسٹی کے اس عہدے پر فائز رہے جس پر کبھی مشہور سائنسدان آئزک نیوٹن فائز تھے۔
ہاکنگ نے سائنس کے شعبے میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی قابلِ تحسین کام یہ کیا کہ 1990ء کی دہائی میں مایوس لوگوں کو زندگی کی خوبصورتی پر لیکچر دینا شروع کیے۔ اس کےلئے دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں، ادارے اور فرمز اسٹیفن کی خدمات حاصل کرتیں، انہیں ویل چیئر سمیت سیکڑوں، ہزاروں افراد کے سامنے اسٹیج پر بٹھا دیا جاتا اور وہ کمپیوٹر کے ذریعے لوگوں سے مخاطب ہوجاتے تھے۔ ان کے اس عمل کو پوری دنیا میں بہت سراہا گیا جو کہ بلاشبہ انسانی فلاح کیلئے ایک عظیم کاوش تھی۔
ہاکنگ نے بہت سی کتابیں بھی لکھیں ان کی کتاب ’’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘‘ نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا، یہ کتاب 237 ہفتے دنیا کی بیسٹ سیلر کتاب رہی اس کے علاوہ انہیں ان کی خدمات کے بدلے امریکا کے سب سے بڑے ایوارڈ ’’پریذیڈیشل میڈل آف فریڈم‘‘ کے علاوہ اور بھی بہت سے ایوارڈز سے نوازا گیا۔ اسٹیفن ہاکنگ پر بہت سی فلمیں بھی بنائی جا چکی ہیں جس میں سے نمایاں 2013 کی دی تھییوری آف ایوری تھنگ تھی۔
بلاشبہ اسٹیفن ہاکنگ ایک عظیم سائینس دان اور ایک عظیم انسان تھے جنہوں نے اس بات کو سچ کر دکھایا کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو انسان موت کو بھی شکست دے سکتا ہے۔