الوداع ہاکنگ

تحریر: سالار سلیمان

زندگی سے بڑا کھلاڑی کوئی نہیں ۔یہ انسان کے ساتھ تب تک کھیلتی ہے جب تک کہ انسان تھک کر خود کو اس کے حوالے نہیں کر دیتا ہے ۔ اس کے بعد زندگی اِس کو گمنامی میں دفن کر دیتی ہے ۔ دنیا میں دوسری قسم کے انسان بھی ہیں، یہ زندگی کو ایک کھیل سمجھتے ہیں اور زندگی سے کھیلنا شروع کر دیتے ہیں ۔ زندگی اور اِن میں یہ کھیل جاری رہتا ہے اور آخر میں ایسے انسان جیت جاتے ہیں۔ تاریخ میں جتنے بھی نام زندہ ہیں، یہ وہی  ہیں جنہوں نے زندگی کے ستم کے آگے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا ۔ یہ آگے بڑھے، کھیل سمجھا، کھیلا ، دنیا فتح کی اور چلے گئے۔ اسٹیفن ہاکنگ اِن کا بھی استاد تھا۔ اس نے مفلوج ہونے کے باوجود دنیا  فتح کی اور پھر ایک شام دوسری دنیا کے سفر پر روانہ ہوگیا۔

ہاکنگ ایک ذہین طالبعلم تھا، واجبی شکل و صورت کے باوجودوہ  بلا کا ذہین انسان تھا۔ جس کیلکولیشن کیلئے انسان کو کاپی پنسل، پہاڑے، جمع تفریق کی ضرورت  ہوتی ہے، وہ اِن کو مسکراتے ہوئے چٹکیوں میں انجام دیتا تھا۔ زندگی اپنی ڈگر پر چل رہی تھی۔ اُس کے بھی کچھ خواب تھے ، جنہیں اُس نے پورا کرناتھا۔ ذہانت اور محنت اُس کو کیمبرج یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی پروگرام تک لے گئی ۔ 1963ء میں ایک دن وہ سیڑھیوں سے نیچے گرا، اُس کو فوراً ہی ہسپتال منتقل کیا گیا، یہاں اس کے ٹیسٹ ہوئے اور ڈاکٹروں نے اُس کو اُسکی زندگی کی سب سے بھیانک خبر سنا دی۔ ڈاکٹروں نے اُس کو کہا کہ ہاکنگ، تم ’موٹرنیورانڈزیز‘ میں مبتلا ہو۔ ہمیں افسوس ہے کہ شاید تم  4 سال میں انتقال کر جاؤ۔

یہ بیماری دل سے متعلق ہے  اور اس کو حرف عام میں ’اے ایل ایس‘ کہتے ہیں۔ دل ہی انسانی جسم کا وہ عضو ہے جو حقیقی معنوں میں انسان کو کنٹرول کرتا ہے ۔ دل  پر چھوٹے چھوٹے سے عضلات ہوتے ہیں جہاں درحقیقت انسانی جسم کے اعضاء کا کنٹرول ہوتا ہے ۔اگر یہ ختم ہو جائیں تو انسانی جسم مرحلہ وار ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے  ۔ اس کے اعضاء اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور انسا  ن ایک زندہ لاش بن کر رہ جاتا ہے ۔ یہ اپنے آپ کو ہر گزرتے دن موت کے منہ میں جاتا ہوا دیکھتا ہے۔ہاکنگ 21 برس کی عمر میں اس موذی مرض کا شکار ہوا۔ سب سے پہلے اس کے ہاتھ کی انگلیاں مفلوج ہوئیں، اس کے بعد اس کا ہاتھ،اس کے بعد نچلا دھڑ، پاؤں الغرض کے ہر گزرتے مرحلے میں ہاکنگ مزید مفلوج ہوتا چلا گیا حتیٰ کہ 1974ء میں ہاکنگ فل ٹائم وہیل چیئر پر منتقل ہو گیا۔ اس کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی اور وہ ایک زندہ لاش کی صورت اختیار کر گیا۔ ڈاکٹرز نے اُس کو اللہ حافظ کہ دیا کہ اس کےبعد کوئی ایسی ادویات نہیں تھیں جس سے ہاکنگ کا علاج ممکن ہو سکتا تھا۔ اُس کے جسم میں زندگی کی ایک ہی رمق تھی، وہ اُس کی پلکیں تھیں اور ہاکنگ نے اپنی پلکوں سے ہی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ اُس نے دنیا کو کائنات کی حقیقت سمجھائی۔ ایک وہیل چئیر اور دو پلکوں سے ہاکنگ نے کائنات کے سربستہ زار کھولے اور دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

کیمبرج یونیورسٹی نے اس عظیم پروفیسر کیلئے ایک ٹاکنگ کمپیوٹر بنایا۔ یہ کمپیوٹر اِس کی پلکوں کی جنبش کو سمجھ کر ،اِن کو الفاظ میں تبدیل کرتا تھا، یہ الفاظ سامنے سکرین پر آ جاتے تھے اور پھر ایک ٹاکنگ مشین سے بولے جاتے تھے۔ ہاکنگ نے ایسے زندگی گزاری۔ اسی حالت میں اُس نے شہرہ آفاق کتابیں لکھیں جن میں ’اے بریف ہسٹری آف ٹائم، دی گرینڈ ڈیزائن،  بلیک ہولز اینڈ بے بی یونیورس، دی تھیوری آف ایوری تھنگ، بگ بینگ تھیوری ‘ سمیت ایک فہرست شما رہے ۔ اس کی اکثر کتب بیسٹ سیلر رہتی تھی بلکہ اے بریف ہسٹری آف ٹائم 237 ہفتے تک بیسٹ سیلر رہی۔ ہاکنگ کی زندگی پر ایک دستاویزی فلم بھی بنی ہے ۔ میں یقین سے کہ سکتا ہوں کہ یہ فلم دیکھنے کے بعد آپ اپنے آنسو نہیں روک سکیں گے اور اس کے بعد آپ کو خودمیں ایک نئی توانائی محسوس ہوگی۔ کوائنٹم اینڈ گریویٹی ، کاسمولوجی سمیت کئی ایک نظریات اُس نے سائنس کو عطا کئے۔

اسٹیفن ہاکنگ مایوسی کے شکار لوگوں کیلئے روشنی کی کرن تھا۔ آپ اس کی زندگی کا مطالعہ کیجئے ، اس کی آٹو بائیو گرافی پڑھئیے تو مجھے یقین ہے کہ آپ بھی ایک نئے جذبے کے ساتھ میدان عمل میں آئیں گے۔ 1994ء سے ہاکنگ مختلف اداروں اور جامعات میں موٹیویشنل لیکچرز دیتا تھا ۔ اس کی وہیل چیئر ایک ٹاکنگ کمپیوٹر اسٹیج پر رکھ دیا جاتا اور اس کے بعد وہ اپنے مخصوص طریقے سے مخاطب ہوتا ۔ وہ لوگوں کو بتاتا کہ میں اگر مکمل مفلوج ہو کر بھی کائنات کے راز کھول سکتا ہوں تو آپ کیوں نہیں؟

آپ اسٹیفن ہاکنگ کو پڑھیں اور جب بھی مایوس ہو تو آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر یہ سوال خود سے کریں کہ اگر ہاکنگ مکمل مفلوج ہو کر دنیا ہی نہیں بلکہ کائنات کو فتح کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں؟

west

Stephen Hawking

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div