ضیاء کا اوپنگ بیٹسمین
تحریر: محمد فرمان
پاکستان کی سیاست کے دو چہرے ہیں، ایک سیاہ اور دوسرا روشن چہرہ۔ سیاہ چہرے کو آمریت اور روشن چہرے کو جمہوریت کہتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست ایک سکے کی طرح ہیں جس کے دو رخ ہوتے ہیں۔ سکہ اچھالنے پر کبھی جمہوریت نصیب ہوتی ہے تو کبھی سکہ اچھالنے پر آمریت مگر دونوں صورتوں میں عوام پریشان نظر آتے ہیں، یہ بات الگ کہ عوام کو جمہوریت میں آمریت سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کا فائدہ صرف چند مخصوص خاندانوں کو ہوا باقی عام آدمی تو قیام پاکستان کے وقت سے ہی مشکلات کا شکار ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد کو جمہوریت کا مطلب بھی نہیں پتا۔ پاکستان میں جتنے بھی سیاسی لیڈر سامنے آئے ان میں سوائے بینظیر بھٹو کے کوئی بھی ایسا نہیں جو یہ کہہ سکے کہ وہ آمریت کی پیداوار نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو بابائے جمہوریت اور جمہوریت کا چیمپئن کہا جاتا ہے مگر تاریخ کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ڈکٹیٹر ایوب خان کی گود سے سیاست کا آغاز کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی کابینہ میں وزیر خارجہ تھے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ پیپلز پارٹی کے لئے ایوب خان کی ڈکٹیٹر شپ حلال اور ضیاء الحق کی ڈکٹیٹر شپ حرام ہے۔

ضیاء کی گود سے سیاست کا آغاز کرنے والے میاں محمد نواز شریف کی کہانی بھی زیادہ مختلف نہیں۔ ایک زمانہ تھا جب نواز شریف جرنل ضیاء الحق کے لاڈلے سمجھے جاتے ہیں اور نواز شریف نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ واقعی وہ ڈکٹیٹر ضیاء کے لاڈلے کہلانے کے مستحق تھے۔ نواز شریف کا ماضی اٹھا کر دیکھا جائے تو انتہائی بھیانک ہے مگر آج وہ بھی جمہوریت کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں۔ چلو دیر آئے درست آئے مگر نواز شریف نے آج تک ماضی میں ہونے والی غلطیوں پر قوم سے معافی نہیں مانگی۔ آج عمران خان کو کٹھ پتلی کہنے والے مسلم لیگ ن کے قائدین یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایک زمانے میں نواز شریف بھی یہی کردار نبھا رہے تھے جو آج کل عمران خان نبھا رہے ہیں۔
مجھے یاد ہے مریم نواز شریف نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ میرے والد میاں محمد نواز شریف سے ماضی میں غلطیاں ہوئیں اور اب انہوں نے غلطیوں سے سبق سیکھا ہے اور وہ نظریاتی ہوگئے ہیں۔ کوئی مریم نواز سے پوچھے بی بی میاں صاحب اپنی غلطیوں پر قوم سے معافی کیوں نہیں مانگ لیتے؟ اور ان تمام افراد سے بھی جن کے خلاف وہ سازشوں میں شریک رہے۔ مریم بی بی آپ تو جانتی ہیں آپ کے والد نے جونیجو حکومت اور دو مرتبہ بینظیر بھٹو کے اقتدار کا تختہ الٹانے میں بہت اہم کردار ادا کیا پھر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف کالا کوٹ پہن کر عدالت میں بھی گئے۔ مجھے یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آئی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ میاں صاحب جب مشکل میں ہوتے ہیں تو وہ نظریاتی بن جاتے ہیں اور جونہی مشکل سے نکلتے ہیں وہ پھر موقع پرست بن جاتے ہیں۔

میاں صاحب کے مزاج کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ وہ سینیٹ انتخابات میں ناکامی کے بعد مزید نظریاتی ہو گئے ہوں گے۔ سینیٹ انتخابات میں شکست کے بعد میاں صاحب جہاں مایوس دکھائی دیئے وہیں بلاول بھٹو زرداری خوش دکھائی دیئے جو کہ میرے لئے حیرانگی کا باعث بنا۔ بلاول بھٹو نے سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آج ضیاء کے اوپننگ بیٹسمین کو شکست ہوئی ہے۔ بلاول بھٹو کے تیر کا نشانہ راجہ ظفرالحق تھے جو مسلم لیگ ن کی جانب سے سینیٹ چیئرمین کے امیدوار تھے۔ بلاول بھٹو نے راجہ ظفرالحق کو اس لئے تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ ضیاء کی کابینہ کا حصہ تھے مگر بلاول شاید بھول گئے کہ ضیاء کے مڈل آرڈر بیٹسمین یوسف رضا گیلانی اب بلاول کے اوپننگ بیٹسمین ہیں۔