چاردن کی ابتدا

دانے دانے پر ہوتا ہے کھانے والے کا نام ۔۔ بالکل ایسے ہی ٹکٹ ٹکٹ پر ہوتا ہے، جانے والے کا نام لیکن میرے ٹکٹ پر میرے نام کے ساتھ ایک اضافی نام بھی درج تھا ، جس سے میں ناواقف تھی ۔ والد محترم کے نام معزعلی تک تو سب ٹھیک ٹھاک ہی تھا ، آگے علی خانی کون صاحب تھے ، اللہ جانے۔ ذکر ہورہا ہے افریقہ کے آخری کونے تک کے سفر کا ۔ جو آج کل پانی کے شدید بحران کی وجہ سے شہ سرخیوں میں ہے۔ لیکن پاکستانی پاسپورٹ پر کیپ ٹاؤن کا ویزہ کراچی کے ان داتاؤں کے کارناموں نے باعث تشویش بنا رکھا ہے ۔

یعنی یک نہ شد دو شد، ٹکٹ پر غلط نام اور پاسپورٹ پر ساؤتھ افریقہ کا ویزہ اور سونے پر سہاگا یہ کہ دونوں چیزیں ایک خاتون صحافی کے ہاتھ میں۔ ایسے میں امیگریشن کے دوران کاؤنٹر پر تشویش تو لازم تھی ۔ خاتون افسرنے پاسپورٹ دیکھا ، مجھے گھورا اور فرمایا ۔۔ اگلے کاؤنٹر پر جائیے اور کہہ دیجیے کہ میں نے آپ کو بھیجا ہے ۔ میں نے حکم کی تعمیل کی ، اگلے اکاؤنٹر پر وہی سب کہا جس کی ہدایت تھی ۔

افسر نے پاسپورٹ الٹا سیدھا کر کے دیکھا اور کچھ کہےبنا آگے بڑھنے کا اشارہ کیا ۔ ہدایات پر عمل کرتے ہوئے میں ایک مشین سے دوسری مشین اور سیکیورٹی کلیئنرس سے گزر کر مطلوبہ گیٹ پر پہنچ گئی ۔ بورڈنگ کے لئے دروازہ کھلنے میں ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا ، میں نے فون گھما کر گھروالوں سے لے کر دفتر کے ساتھیوں تک سب کو خدا حافظ کہہ دیا۔ آخری کال بہن کو کی ، باتوں میں چھٹی حس کی تھپکی زبان پر آگئی ( آپا مجھے یقین نہیں آرہا کہ میں اچانک بیٹھے بٹھائے کیپ ٹاؤن جارہی ہوں وہ بھی صرف چار روز کے لیے ، سب اتنا اچانک ہوا کہ مجھے سفر کا یقین نہیں ) اس جملے میں جانے کی خوشی سے زیادہ نہ جانے کا اندیشہ تھا ، دل طوفان کی آمد آمد کی گواہی دے رہا تھا۔

ڈیڑھ گھنٹہ گزرا ، دروازہ کھلا ، میں نے بیگ تھاما ، اور اپنے زون کے اعلان کا انتظارکیا ، جب دروازے پر پہنچی تو ٹریفک کنٹرول افسر کےچہرے کے تاثرات دیکھ کر ذہن میں دیا کچھ تو گڑ بڑ ہے والا ڈائیلاگ گونجنے لگا ۔ افسران آپس میں ایسے گفتگو کرنے لگے جیسے کسی گینگ وار کے کارندے یا اسمگلر کو دھر لیا ہو ، ایک نظر پاسپورٹ پر پھر ٹکٹ پر اور پھر مجھ پر ، یہ سلسلہ پندرہ منٹ تک چلا اور طیارہ اڑنے میں بھی کم و بیش اتنا ہی وقت باقی تھا ۔ خاتون یہاں تک پہنچی کیسے ؟ اس گھتی کو سلجھانے کی کوشش میں مصروف بزرگ افسر گہری سوچ میں گم تھے ایسے میں میری جانب سے ایک سوال کیا گیا اور وہ حیرانی کے سمندر میں ڈوب گئے ، سر کیا میں کیپ ٹاؤن جا سکوں گی ؟ جواب میں غصے سے چور سوال کا باؤنسر پڑا ، بی بی یہ بتائے بغیر ایگزیٹ اسٹیمپ کے آپ یہاں تک آئیں کیسے ؟۔ دادا جی میں تو آپ ہی کے ٹوٹے پھوٹے سسٹم کی ہدایت پر چلتے ہوئے یہاں پہنچی ہوں ، مجھے کیا خبر کے اسٹیمپ نہیں لگا ۔

جملہ زبان سے نہیں آنکھوں سے ادا کیا اور وہ صاحب سمجھ بھی گئے کہ ایف آئی اے کی ناقص کارکردگی اور سسٹم دونوں کا پول کھل گیا ہے ، ایسے ہی تو نہیں گینگ وار کاندے سے لے کر کرپٹ حکمران اور افسران پاکستان سے باہر باآسانی نکل جاتے ہیں ۔ تنقید کا موقع بہترین تھا لیکن صورت حال نازک ، صحافتی ڈپلومیسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے احمقانہ سوال پھر دہرایا کہ کیا میں اسی طیارے میں کیپ ٹاؤن جاسکوں گی ؟ سینئر افسر نے مجھے امیگریشن کاؤنٹر کی جانب دوڑایا ،ٹرانسپورٹ افسر بھی میرے ہمراہ تھا، جس نے چند ہی منٹوں کی مسافت میں ایف آئی اے کے پول پاٹ سب کھول دی ۔ کاؤنٹر پر پہنچے تو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کی مثال صادق آئی ۔ افسر سے لے کر چپڑاسی تک نے مجھے بھیانک مجرم ٹھہرا کر ایف ائی اے کی غفلت پر چادر ڈھانپی اور میری خاموشی کو ندامت مان کر اسٹیمپ لگانے کا احسان کردیا ، ادھر اسٹیمپ لگا ادھر زخمی شیرنی کا انداز امڈ آیا ، صحافی کی روح کو بھی تو تسکین پہنچانا تھی ۔

سامنے بھوری آنکھوں والا افسر تھا ، وہی ہتھے چڑھا ، تنقید کا جو طوفان بورڈنگ گیٹ پر تھما تھا یہاں سونامی بن کر ٹکرا گیا۔ ہمراہ موجود افسر نے تنگ آ کرفلائٹ چھوٹ جانے کا واسطہ دیا ، میں نے تعاون کا احترام کیا اور آگے بڑھ گئی۔ سننے سنانے کی جو کسر رہ گئی تھی گیٹ پر پہنچ کر سینئر افسر پر تمام ہوئی ۔اسٹیمپ والا مرحلہ ختم ہوا لیکن ٹکٹ پر غلط نام کی تلوار ابھی منڈلا رہی تھی ، بھلا ہو ہمارے ائرپورٹ حکام کا جن کی غفلت میرے سفر میں حائل نہ ہوسکی اور میں طیارے میں سوار ہونے میں کامیاب ہوگئی ۔ جہاں پہلے سے لدے مسافروں نے تاخیر کی وجہ جان کر گھورتے ہوئے میرا بھرپور استقبال کیا اور سیٹ تک کے سفر میں آنکھوں آنکھوں میں احتجاج کا سلسلہ برقرار رہا ۔

ٹیک آف کے ساتھ چار روزہ یادگارسفر کی ابتدا ہوگئی ۔ ساتھ ایف آئی اے کی کارستانیوں کو قریب سے جاننے کا موقع بھی ملا ۔ جنہوں نے کرمنلز کے لیے آسانیاں اور بے قصور شہریوں کے لئے مشکلات کر رکھی ہیں ۔

air port

Tabool ads will show in this div