کیوں ایک آنکھ چھوٹی، ایک بڑی ہے؟
شرمین کی بیٹی کی عمر چار سال ہوگئی تھی، اسے کسی اسکول میں داخلہ کروانا تھا، جب اس نے اس سلسلے میں اپنے شوہر نامدار سے بات کی تو ان کا کہناتھا کہ ’’بھئی اس میں سوچنے کی کیا ضرورت ہے، جس اسکول سے تم نے پڑھا تھا، اسی اسکول میں اسے داخلہ دلوادو۔ ا س کی پڑھائی بھی کوئی بُری تو نہیں ہوتی ، اب خود کوہی دیکھ لو، تم بھی تو اسی اسکول سے ہی پڑھی ہوئی ہو۔‘‘ کمال صاحب کا جواب سن کر شرمین نے ان سے کہا: ’’کیوں نہ ہم اپنے عمر کے ہی اسکول میں اسے داخلہ کروادیں، دونوں ایک ساتھ آئیں گے اور جائیں گے تو مجھے بھی زیادہ فکر نہیں رہے گی۔‘‘ اس کی بات سن کر کمال صاحب کا منہ بن گیا اور انہوں نے جواب دیا: ’’ پتا بھی ہے کہ اس کے اسکول کی ایک ماہ کی فیس10ہزار ہے، میں اس کی فیس تو اس لئے دے دیتا ہوں ، کیوں کہ اسے کل کے دن ملازمت کرنی ہے، کمانا ہے، گھر کا خرچہ چلانا ہے اور ہمیں سنبھالنا ہے۔ لیکن میں رباب کے لئے اتنا خرچہ نہیں کرسکتا، اسے ویسے بھی اتنے مہنگے اسکول میں پڑھ کر کیا کرنا ہے، اسے کونسی ملازمت کرنی ہے، مستقبل میں اسے ہانڈی چولہا ہی کرنا ہے نا؟‘‘
جو لوگ مندرجہ بالا پیراگراف پڑھنے کے بعد یہ سوچ رہے ہیں کہ ایسا اب نہیں ہوتا،ان کی سوچ غلط ہے۔ میں جس علاقے میں رہائش پذیر ہوں ، وہاں متوسط طبقے یا اپر مڈل کلاس کے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ رہتے ہیں ،میں نے یہاں کی بھی ایک دو فیملیز ایسی دیکھی ہیں ،جن کے لڑکے تو شہر کے مہنگے ترین اسکولز میں پڑھتے ہیں ، جبکہ ان کی بیٹیوں کو علاقے میں موجود ہی کسی انگریزی میڈیم اسکول میں داخلہ کروادیاگیا ہے، ایک مرتبہ ان سے پوچھاگیا تو یہ جواب ملا: ’’بیٹیوں کو آنے جانے میں آسانی ہوتی ہے۔‘‘ اب کوئی بندہ یہ کہہ دے کہ’’ بہن !اپنی بیٹے کو اسی علاقے کے اسکول میں داخل کروادو ، اسے بھی آنے جانے میں آسانی ہی ہوگی۔‘‘ لیکن خیر انہیں اس طرح کا جملہ کہانہیں جاسکتا، کیونکہ ویسے ہی پہلے محلے دار ایک دوسرے کی ہفتوں کیا مہینوں تک شکلیں نہیں دیکھتے، ایک دوسرے کے یہاں آنا جانا بھی ہوتا، اگر غلطی سے کسی تقریب میں ملاقات کے وقت ایسا کہہ دیا جائے تو یقیناًرہے سہے تعلقات بھی ختم ہوجانے کا اندیشہ رہتاہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ’’ایک آنکھ بڑی اور ایک آنکھ چھوٹی‘‘ ہونے کا یہ عمل سالوں سے اسی طرح جاری ہے۔ کئی گھرانوں میں کہاجاتا ہے کہ ہم تو اپنے بیٹے اور بیٹی میں کوئی فرق نہیں کرتے ، لیکن اب بھی کئی گھرانوں میں بیٹوں کے لئے ان کی پسند کا کھانا بھاگم بھاگ تیار کیاجاتا ہے،اگر پکائی جانے والی دال پسندنہ آئے تو اس کے لئے فورا ہی چکن کی کوئی ڈش پکاکر دی جاتی ہے۔ اس کے آرام کا خاص خیال رکھا جاتاہے،بیٹا اگر سو رہاہو تو گھرمیں ہو کا عالم ہوتا ہے، وہ اگر بیمار ہو تو جیسے پورا گھربیمار ہوجاتا ہے۔ اس کے اگر امتحانات ہورہے ہوں تو تیز آواز میں ٹی وی یادیگر الیکٹرونک اشیاء چلانے پر پابندی عائد کردی جاتی ہے کہ کہیں اس کی پڑھائی کا عمل متاثر نہ ہوجائے۔ اسی طرح کی سینکڑوں مثالیں ہیں ،جو روزانہ اپنے اردگرد دیکھنے کو مل جاتی ہیں ۔ بیٹوں کو پروفیشنل تعلیم دلوانے پر لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں ۔ لیکن پھر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ جب انہیں بیرون ملک جاب مل جاتی ہے، وہ باہرپھر جاکر سیٹ ہوجاتے ہیں ، شادی کرلیتے ہیں اور پھر گھر میں صرف خرچہ چلانے کے پیسے بھیجتے ہیں لیکن سالوں تک اپنے والدین کو شکل نہیں دکھاتے، جبکہ دوسری طرف کئی گھرانوں میں ایسے وقت میں بیٹیاں ہی ماں ، باپ کا سہارا بنتی دکھائی دیتی ہیں ۔
یہ ہرگز نہیں کہا جارہاکہ بیٹوں کو اہمیت نہ دیں ، بلکہ اصل مدعا یہ ہے کہ بیٹیوں کو بھی اتنی اہمیت دیں جتنی کہ معاشرے میں بیٹوں کو دی جاتی ہے۔ان کی تعلیم کے سلسلے میں بھی اتنے ہی پریشان ہوں جتنا کہ بیٹے کے لئے ہوتے ہیں ۔اس کے علاوہ اکثر یہ بھی دیکھاگیا ہے کہ ماں باپ بچوں میں تفریق کرتے ہیں ، کوئی ایک بچہ ان کا’’ فیورٹ ‘‘ ہوتا ہے، اس بچے کی خواہشو ں کو زبان سے اداہوتے ہی پورا کردیا جاتا ہے، جبکہ دوسرے بچوں کو اتنی اہمیت نہیں دی جارہی ہوتی، جس سے بچوں میں آپس میں ہی نفرتیں پروان چڑھنے لگتی ہیں ، جو بڑے ہونے کے باوجود دلوں سے نہیں نکل پاتیں ۔ان باتوں کو مدنظررکھتے ہوئے والدین کو چاہئے کہ وہ ایک آنکھ بڑی اور ایک چھوٹی نہ کریں، بچوں آنکھوں کو برابر سمجھیں ۔