گمنام لاشیں

****تحریر : ثنا انعام ***
وہ خطروں سے لڑتا ،،افلاس سے مرتا ۔۔ ایجنٹوں کے ہاتھوں جمع پونجی لٹا کر امریکہ پہنچا۔۔۔۔۔وہاں پہنچتے ہی ۔۔اس سے سب سے پہلے پہچان چھین لی گئی ۔ اس نے اپنا نام تبدیل کر لیا ۔۔۔ پھر کبھی یہاں کبھی وہاں چھپتے چھپاتے ۔۔ نوکریاں بدلتے ۔۔۔ تنہائیاں ہی اس کے حصے میں رہ گئی۔۔۔وہ جہاں جس جگہ رہتا وہاں سر چھپانے کے لئے اس جیسے بہت ہوتے ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت سے بچنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ رات کی ڈیوٹی کی جائے اور دن کے اجالے میں کسی اندھیری کوٹھڑی کو آباد کیا جائے۔۔۔ گھر والوں کے لئے وہ بہت بڑے ملک میں ڈالرز کما رہا تھا لیکن یہ تنہائی ہی اس کا مقدر رہی۔ ممتاز اے خان کی تنہائی کی کہانی اس فون کال پر آکرختم ہوئی جو نیو یارک کےایک اسپتال سے پاکستان قونصلیٹ کو کی گئی۔۔۔ نیو یارک سٹی حکام کے مطابق ممتاز خان نامی ایک پاکستانی کی لاش ایک ماہ سے سردخانے میں رکھی ہے۔۔پاکستانی قونصلیٹ نے امریکی مسلمانوں کی تنظیم اکنا ریلیف سے رابطہ کیا۔۔۔جس کے بعد ان کے ورثا کی تلاش شروع کی گئی۔۔۔مگر دو ہفتےاور گزرگئے اورکوئی وارث سامنے نہ آیا۔۔جس کے ممتاز خان کی تدفین کر دی گئی۔
ہمارے ملک میں نوکریوں کا اس قدرکال پڑا ہے، اقتصادی نظام اس قدر پستی میں جاچکاہے کہ یہ اس ملک کے نوجوانوں کے کسی کام میں نہیں آسکتا۔ جس سے جنم لینے والی غربت اور افلاس نے گھر گھر ڈیرے ڈالے رکھے ہیں،، اسی اذیت کا شکار نوجوان در در کی خاک چھانتے، ہر شام گھروں کو ناکام لوٹتے ہیں، ،والدین کی آنکھوں میں ٹمٹماتے امیدوں کے چراغ دھیمے پڑتے،،، بیوی بچوں کی حسرت بھری نگاہیں ایسے ہتھوڑے کی طرح برستی لگتی ہیں، تب وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ شاید پاکستان میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے ۔۔۔اورا س غیر یقینی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے بھیڑئے نما لوگ انہیں یو رپ اور امریکا میں نوکری کے خواب دکھا کر اپنا شکار بنالیتے ہیں۔ پاکستان سے یورپ کے غیر قانونی سفر پر نکلنے والے تارکین وطن۔۔ بلوچستان سے ایرانی حدود میں اور پھر وہاں سے ترکی اور یونان کی جانب روانہ ہوتے ہیں۔ کہیں صحرا ئی جھاڑیوں سے دست بستہ تو کہیں سنگلاخ پہاڑوں پر قیام،، چارچار دن بھوک اور پیاس سے نڈھال لوگوں کی اکثریت کسی نہ کسی ملک کی سرحدی فورس کی گولیوں کا نشانہ بنتی ہے، ان کے پیاروں کے خواب خون سے سرخ ہوجاتے ہیں۔

جو یورپ یا امیریکہ پہنچ کر خود کو سرخرو سمجھتے ہیں، ان کی بھی بڑی تعداد کامیابی کے سراب کے پیچھے بھاگتے غیر قانونی تارکین وطن کی سی زندگی گزارتے ہیں، ترقی اور خوشحالی کے راستے پر چلنے کے خوابوں میں ذلت اور اذیتوں کے دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں انسانی اسمگلر کے دفاتر باآسانی ڈھونڈے جاسکتے ہیں۔۔۔ اس قسم کے کاروبار سے مقامی پولیس لاعلم رہے ایسا نہیں ہوسکتا ۔۔۔ویزے پاسپورٹ اور دیگر قانونی مراحل کے بغیر یورپین ملکوں میں بھجوانا بھلا کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔؟ پاکستان کے شہر منڈی بہالدین، گوجرانوالہ اورگجرات ۔۔۔انسانی اسمگلنگ میں سب سے آگے نظرآتے ہیں ۔۔جسکی سب سے بڑی وجہ گجرات کے ان لوگوں کی کامیاب کہانیاں ہیں جو کسی بھلے زمانے میں باہر نکل گئے ۔ لیکن اب ،،،صرف منڈی بہاء الدین میں تین ماہ کے دوران تین بڑے حادثات میں دس سے زائد جوان موت کی وادی میں اتر گئے۔۔۔ مقابلے اور حرس میں ہر دوسرے گھر کا لڑکا یورپ میں تارکین وطن بنا ہوا ہے۔۔۔ آج تک مندی بہاء الدین میںٕ ایف آئی اے کا آفس نہ بن سکا۔۔۔۔۔وجہ بتانے والا بھی کوئی نہیں۔۔ تواس قسم کے جرائم کی روک تھام بھی کیسے ممکن ہے؟؟؟۔

ایف آئی اے کی ریڈ بک میں گوجرانوالہ سے پچیس انسانی اسمگلرز موجود ہیں۔۔۔ انتہائی مطلوب ہونے کے باوجود آج تک انتطامیہ ایک بھی ملزم کو پکڑے میں ناکام ہے۔۔نتیجہ، چھوٹی مچھلیاں توجال میں آئیں لیکن بڑے مگرمچھ تاحال آزاد پھررہے ہیں۔ ۲۰۰۲ میں اس گھنائونے کاروبار کو روکنے کے لیے حکومت نے ایک آرڈیننس پاس کیا تھا مگر حالیہ واقعات نے یہ ثابت کردیاہے کہ وہ بل ابھی تک قانون کا حصہ ہی نہ بن سکا ہے۔ حکومتی نااہلی تو اپنی جگہ۔۔۔بطورخاندان ہم نے بھی ذمہ داری سے منہ موڑ لیا ہے۔ والدین اورکبھی جیون ساتھی ہی غیرقانونی طریقہ اپنانے کے لیے اکساتے ہیں۔۔کچھ زمین بیچی،کچھ زیوربیچا اور قید تنہائی کی سزا سنا دی اپنے پیاروں کو۔۔۔ پھر بھلے وہ لیبیا کے صحراوں میں پیاس کی نذر ہوں یا یورپ کے سمندروںمیں غرق ہوں ،ایران کے بارڈرپر گولیوں سے بھون دیا جائے یا یونان کی گہری کھائیوں میں موت کا منہ دیکھیں ۔۔یا گمنام ہی قبر کے اندھیروں میں اتاردیا جائے ۔۔۔ یاد رکھئے ۔۔۔سنہرے مستقبل کے خواب ضرور سجائیے، لیکن اپنوں سے کٹ کر اور لاوارث ہونے کی قیمت پر ہر گز نہیں۔ سماء