غریب کی بیٹی سے شادی نہیں کرونگا
وہ بڑی مشکل میں تھا. باپ کو گزرے تین برس ہی بیتے تھے کہ بوڑھی ماں بھی دارِ مفارقت دے گئی اب وہ بالکل تنہا ہوچکا تھا. نہ کوئی بہن نہ کوئی بھائی بس اپنی منزل کا اکیلا ہی راہی تھا. اُس نے تنہائی سے چھٹکارہ پانے کا ارادہ کیا اور اپنے لیے ایک باشعور لڑکی کی تلاش شروع کردی. سوچنے لگا امیر سے شادی کروں یا غریب سے. دونوں میں سے کون بہتر رہیگا جو زندگی کے دشوار سفر کو حقیقی معنوں میں سہیل بناسکے. وہ مالی طور پر مضبوط تھا اسے پیسے کا لالچ تو نہ تھا ہاں البتہ ایک پڑھی لکھی سمجھدار باشعور سلجھی ہوئی فیملی کی تلاش ضرور تھی. ابھی تلاش جاری ہی تھی کہ اُسے زاہدہ خالہ نے ثَمرا کا رشتہ بتایا جو ایک انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی. زاہدہ خالہ کے اصرار پر وہ ثَمرا کو دیکھنے اس کے گھر گیا. ثَمرا اسے اور وہ ثَمرا کو پسند آگیا. ثَمرا کے گھر والے غریب طبقے سے تعلق رکھتے تھے باپ روزانہ کی دہاڑی پر کرائے کی سوزوکی چلاتا تھا. اور گھر میں کوئی دوسرا کمانے والا نہ تھا لہذا معاشی حالات بھی کچھ اچھے نہ تھے اور گھر میں غربت صاف منہ چڑا رہی تھی. ثَمرا سے چھوٹی دو جوان بہنیں اور تھیں ثَمرا کے غریب ماں باپ کو ثَمرا کے ساتھ ساتھ اُن کی شادی کی فکر بھی کھائی جارہی تھی.
اُس کے لیے فیصلہ کرنا بہت مشکل ہورہا تھا. ایک ملاقات میں وہ کتنا جان سکتا تھا. لڑکی بظاہر تو اچھی تھی. لیکن تعلیم کی کمی اور غربت آڑھے آرہی تھی. ابھی سوچ میں گم ہی تھا کہ اُس کے پاس مسز کلثوم کا فون آیا. مسز کلثوم نے اُسے ایک رشتہ بتایا لڑکی اپنا بوتیک چلاتی ہے والدین کا انتقال ہوگیا ہے فلحال اپنے بھائی بھابھی کے ساتھ رہتی ہے. اچھے پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے لوگ ہیں. آپ بولیں تو کسی اچھے سے کافی شاپ پر دونوں کی میٹنگ کرادی جائے مسز کلثوم نے اُسے آفر کی. لیکن اُس نے سوچنے کا کچھ وقت مانگا اور فون بند کردیا. جیسا وہ چاہتا تھا ویسا اُسے مل رہا تھا. لیکن جیسے ہی وہ کوئی فیصلہ لینے کی سوچتا اُس کے سامنے ثَمرا کا معصوم چہرہ اور اس کے مجبور باپ کی فریاد کرتی آنکھیں گھومنے لگتیں. اُس کےلیے فیصلہ کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا تھا. ایک طرف اُس کی خواہشات کے مطابق معاشی طور پر مضبوط پڑھی لکھی باشعور سلجھی ہوئی فیملی تھی تو دوسری طرف ایک غریب گھر تھا جس میں تین تین جوان بیٹیوں کا باپ اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کی راہیں ڈھونڈ رہا تھا.
آخرکار اُس نے فیصلہ کیا وہ غریب کی بیٹی سے شادی کریگا. اُسے وہ عزت وہ مقام دیگا جو ایک اچھی بیوی کو ملنا چاہئیے. لہذا رشتہ طے ہوگیا شادی کے لیے چھ ماہ کا وقت لیا گیا. اُس نے ثَمرا کے والدین کو جہیز سمیت کسی بھی طرح کی تیاری سے روک دیا. اللہ کا دیا اُس کے پاس سب کچھ تھا اچھی ملازمت اپنا گھر. وہ ثَمرا کے والدین پر کسی بھی طرح کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا تھا. تعلیم جاری رکھنے کےلیے اُس نے ثَمرا کا کالج میں ایڈمشن بھی کرایا. ثَمرا کو نیا اسمارٹ فون خرید کر گفٹ کیا دونوں کا آپس میں موبائل کے ذریعے رابطہ بھی ہوگیا ایک دوسرے کو جاننے کا آغاز ہوا. بات کے دوران اُس نے محسوس کیا ثمرا ادب وآداب (manners) سے کافی حد تک ناواقف ہے ساتھ جھوٹ بولنے کی بھی عادی ہیں. بظاہر تو یہ اتنی بڑی بات نہیں تھی لیکن کیا زندگی بھر ایسے انسان کے ساتھ رہا جاسکتا ہے یہ سوال اُس کے دماغ کی گھنٹیاں ضرور بجا رہا تھا. اِسی دوران یہ بھی معلوم ہوا ثَمرا پڑھنے میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتی اور وہ کالج سے مسلسل غیر حاضر ہے. مصوفہ دستکاری سے بالکل انجان ہیں جبکہ امورِ خانداری میں بھی کوئی خاص مقام نہیں رکھتی ہیں. مزید یہ کہ جیسے جیسے وقت گزرنے لگا ثَمرا کا رویہ اُس کے ساتھ روعب دارانہ حاکمانہ ہونے لگا اور اُس کے خیالات سوچ کا مذاق اڑھانے اور تضحیک کرنے لگی. جب اُسے یقین ہوچلا کہ ثَمرا مکمل طور پر منفی سوچ کی حامل لڑکی ہے اور ایسے انسان کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے تو اُس نے اپنے فیصلے سے رجوع کیا اور رشتہ ختم کردیا۔ کچھ دن بعد مسز کلثوم سے رابطہ کیا اور اُن کے ساتھ کافی شاپ پر ایک میٹنگ رکھی.
غریب ہونا جرم نہیں ہے اور نہ ہی غربت کے باعث اولاد کا تعلیم کو جاری نہ رکھ پانا جرم ہے. لیکن والدین کی جانب سے اپنی اولاد کے اندر اچھے اخلاق بہتر تربیت اور مثبت سوچ کو منتقل نہ کرنا کسی جرم سے کم نہیں. کیونکہ منفی سوچ اور برے اخلاق کے باعث ہی معاشرے تباہ ہوا کرتے ہیں جو نسل در نسل پرورش پاتے رہتے ہیں. مانا کہ غریب والدین غربت کے باعث اپنی اولاد کو کچھ نہیں دے سکتے لیکن کم ازکم اچھے اخلاق بہتر تربیت اور مثبت سوچ تو اپنی اولاد میں منتقل کر ہی سکتے ہیں. خدارا اپنی بیٹیوں کی اچھے اخلاق اور مثبت سوچ کے ساتھ تربیت کیجئیے تاکہ کوئی مثبت رشتہ آجائے تو یہ کہہ کر واپس نہ لوٹ جائے میں غریب کی بیٹی سے شادی نہیں کرونگا. سماء