اللہ سے دوستی کرلیں
کیا کبھی آپ نے اپنی سالگرہ کے علاوہ سوچا ہے کہ دنیا میں آئے کتنے برس ہوگئے؟ذرا دھیان میں لائیے۔۔۔!بیس، تیس، چالیس، پچاس ، ساٹھ یا شاید اس سے زیادہ؟؟۔
اب ایک لمحے کے لیے رُک کر اُن لوگوں کو ذہن میں لائیے جو آپکے سامنے اس دنیا سے رُخصت ہو گئے۔کیا وہ سب آپ سے عُمر میں بڑے ہی تھے جو دُنیا سے گئے؟ یقیناً ایسا نہیں ہوگا کیونکہ موت ایسی ظالم چیز ہے جو کم عمروں کو بھی کوئی رعایت نہیں دیتی، تو سوچیں اگر وہ آپکی عمر تک ہہنچنے سے پہلے حساب کتاب کے مرحلے میں داخل کر دیے گئیے تو ہمارے اور آپ کے پاس کیا گارنٹی ہے کہ ہم سو سال تک ہی جئیں گے ؟ اور کم از کم ساٹھ برس کا ہونے کے بعد ہی توبہ تائب ہونے کا عمل شروع کریں گے ۔شاید ہماری سوچ کا انداز یہ ہے کہ ہم اب تک اس دنیا میں اس لئیے ہیں کہ اب تک ہماری لکھی گئی عمر مکمل نہیں ہوئی۔
مگر ذرا سا انداز بدلیے اور انتہائی خوش کن وجہ یہ سمجھ لیجئے کہ ہم اب تک اس لیے زندہ ہیں کہ ہمارا رب اب تک ہم سے پُر امید ہے کہ ہم کسی بھی لمحہ اسکی پسندیدہ راہ چُننے والوں میں سے ہو سکتے ہیں۔یہ احساس کسقدر خوبصورت اور حسین ہے کہ وہ خدا جو ہم سب کی امیدوں کو پورا کرنے والا ہے وہ بھی اپنے بندے سے اُسکے کروڑ ہا گناہوں کے باوجود محبت کرتا ہے مثبت امید رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ اسکی طرف رجوع کیا جائے اس انتظار میں رہتا ہے کہ اسکا در کھٹکھٹایا جائے اس سے توبہ کی جائےاور اُسے راضی کر لیا جائے۔
تو سوال یہ ہے کہ ایک دن کے چوبیس گھنٹوں یعنی ایک ہزار چودہ سو چالیس منٹوں میں سے کتنے منٹ آپ نے اس بات کی کوشش کی کہ وہ راضی ہو جائے؟اپنے گناہوں کی توبہ کرنے میں روزانہ اوسطاً کتنا وقت لگایا؟ اُسکی محبت میں کس کام سے خود کو روکا؟ اسکی رضا پانے کیلئے کونسا کام کیا؟یہ تو دن میں کتنی بار سوچا کہ میری دعائیں پوری نہیں ہوتیں، لیکن کیا کبھی اتنا بھی سوچا کہ آپ نے دعائیں پورا کرنے والے کے احکامات کو کس حد تک پورا کیا؟ روزانہ رات کو سونے سے پہلے اپنا احتساب کیجئیے یہ عمل آج سے ہی شروع کر لیجیے کہ اگر آپ نے یہ سب نہ کیا تو بھلا کیا کیا؟ ایسا دن جینے کا کیا فائدہ جس میں جیون دینے والے کی خوشی کیلئے ہی کوئی سامان نہ کیا ہو۔۔ ایسی نیند ان آنکھوں میں اترے ہی کیوں جس سے پہلے توبہ کے آنسو ان آنکھوں کو ترنہ کردیں ۔
اپنی پریشانیوں کے دُکھڑے دنیا والوں کے سامنے رونے کے بجائے اپنے خدا پر بھروسہ کریں، اُسے بتائیں وہ سب کچھ جو آپ پر گزر رہی ہے وہ تمام جو آپ پر گزر چکی ہے اور وہ بھی جس کے گزرنے کا خوف آپکے دل میں کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ یقین جانیےکہ وہ سب سے بہترین سُننے اور دیکھنے والا ہے، وہ سب سے بڑھ کر جاننے والا بھی ہے مگر سب کچھ جاننے کے باوجود بھی وہ چاہتا ہے کہ آپ کا دُکھ آپکی زبانی سُنے آپ جو کچھ بھی محسوس کریں اُس سے کہنے کی عادت ڈالیں وہ خوشی ہو چاہے دُکھ ، کسی نے آپکا دل توڑا، آپکے ساتھ زیادتی کی، کسی مقام پر آپکی حق تلفی ہوئی ، ناحق آپکو رسوا کرنے کی کوشش ہوئی یہ سب باتیں شئیر کرنے یا ان رویوں پر آنسو بہانے کیلئے کسی دوست کا کندھا ڈھونڈنے کی کوشش نہ کریں کوئی بھی انسان چوبیس گھنٹے آپکے لئیے فارغ نہیں ہوگا، اور لازم نہیں کہ جس کے سامنے آپ رو رہے ہیں وہ کسی کے سامنے آپ پر ہنسنے والا نہ ہو ۔
مگر ہاں ۔۔صرف اور صرف یہ یقین اپنے دل میں پختہ کر لیجئے کہ وہ ایک ذات جو روتے ہوؤں کو ہنسانے پر قادر ہے جو ہر ظلم و زیادتی کا بدلہ لینے کی طاقت رکھتی ہے وہ ہر لمحے آپکے ساتھ ہے اور آپ سے زیادتی کرنے والے ہر شخص پر اپنی بے آواز لاٹھی برسا سکتی ہے اور آپ دیکھئیے گا کہ اس یقین کیساتھ ہی آپ کو محسوس ہوگا کہ دل کو نا قابلِ بیان سکون مل رہا ہے ، جسکی چھوٹی سی مثال یوں سمجھ لیجیے کہ بچپن میں ہمیں کوئی بھی تنگ کرے یا مارے ہم فوراً ماں کی طرف لپکتے ہیں اُسے بتاتے ہیں کہ فلاں نے ہمیں مارا اور ماں کا صرف ایک ہی جُملہ ’’اچھا، میں ابھی اُسے ٹھیک کرتی ہوں‘‘۔ ایسا بھرپور دلاسہ ثابت ہوتا ہے کہ لگتا ہے جیسے زخموں پر مرہم رکھ دیا گیا ہو اور اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ جس نے ہمیں مارا ہے اب وہ میری ماں سے بچ نہیں پائے گا تو وہ خدا جو ستر ماؤں سے بڑھ کر پیار کرنے والا ہے اُسے کبھی آپ نے کہہ کر دیکھا کہ فلاں نے میرے ساتھ یہ زیادتی کی؟۔
بیشک وہ سب جانتا ہے مگر ایک بار اُسکے سامنے اپنے دُکھوں کی گھٹڑی کھولیں تو سہی اور پھر دیکھیں آپکا دل کیسا سکون پاتا ہے لیکن ہاں اس سے پہلے ضروری ہے کہ اللہ سے دوستی کر لیں ، اور یہ کوئی بہت مشکل بات نہیں اللہ جو ہماری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے فرماتا ہے کہ ’’میں محنت کرنے والوں کو دوست رکھتا ہو‘‘تو بس محنت کیجئے اُسکی محبت پانے اور اُسکی مخلوق میں محبتیں بانٹنے کیلئے۔کیونکہ رب کی محبت کو زوال نہیں اور یہ دنیا سے شروع ہو کر آخرت تک ساتھ نبھانے والی ہے۔