ماں نےبگاڑدیا

تحریر: نورسلیم

پہلا منظر :’’ارے تم نے سنا، بھائی نے ثوبیہ کویونیورسٹی جانے کی اجازت دے دی ہے، مجھے تو یقین ہی نہیں آیا، یہ سن کر۔بھائی تو اپنی بیٹی کو کہیں اکیلا نہیں جانے دیتے، آخر پھر انہوں نے کس طرح اسے یونیورسٹی جاکر پڑھنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس میں یقینااس کی ماں کا ہی ہاتھ ہوگا۔ بھابھی نے ہی بھائی کو مجبور کیاہوگا ورنہ میرا بھائی کہاں اپنے فیصلے تبدیل کرتاہے۔‘‘

 

دوسرا منظر: ’’شاہین کو دیکھا تم نے، کیسے بڑھ بڑھ کے ان رشتہ داروں کا ہاتھ بٹارہی تھی، جن سے ہمارے برسوں کے تعلقات خراب ہیں ، اس کی ماں نے اسے سکھایا ہوگا ، جبھی تو اس طرح کررہی ہیں ، اس کی ماں تو ہے ہی ایسی، یہی چاہتی ہے کہ ہم اور ہماری بیٹیوں کی بُرائی ہو،وہ اور اس کی بیٹی کو دنیا سراہتی رہے۔‘‘

تیسرا منظر: ’’اتنی بڑی ہوگئی ہے سحرش! لیکن دیکھو کس طرح بچوں کے ساتھ بچی بن کے کھیل رہی ہے، اپنی ماں کی بگاڑی ہوئی ہے، اس کی ماں کی ہی حمایت حاصل ہے اسے، جبھی تو آج تک اس کا بچپنا نہیں گیا۔‘‘ یہ تو صرف تین مختلف مناظر ہیں ، جو بیان کئے گئے ہیں ، ایسے ہزار ہا مناظر معلومات زندگی کے دوران باقاعدگی سے ہمیں دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں ۔ جہاں لڑکیوں کے ہر کام کو اس کی ماں سے جوڑدیا جاتاہے۔ لڑکیاں اگر خود ہی بڑی ہونے کے بعد فیصلے لیتی ہوں ،تب بھی ان کے فیصلوں کا الزام ماں کے سر پر ہی دھر دیا جاتاہے۔ ہمارے معاشرے میں عموما یہی کہاجاتا ہے کہ ’’بیٹیاں ماؤں کا عکس ہوتی ہیں ۔‘‘ کئی گھرانوں میں آج بھی لڑکی پسند کرتےوقت پہلےاس کی ماں کو دیکھا جاتاہے، ان کی یہی سوچ ہوتی ہے کہ جیسی ماں ہوگی،ویسی ہی اس کی بیٹی ہوگی۔ اگران گھرانوں کو لڑکی کی ماں کی عادات اور ا س کے اخلاق پسند آتے ہیں ، تب ہی وہ لڑکی کے لئے ہاں کرتے ہیں، بصورت دیگر لڑکی کتنی بھی اچھی ہو، اسے گھر کی بہو کے طور پر تسلیم نہیں کیاجاتا۔

یہ بات درست ہے کہ اکثر لڑکیاں اپنی ماں سے ہی زیادہ قریب ہوتی ہیں ۔ ماؤں کا ہی بیٹیوں پر اثر آتا ہے ،کیوں کہ24گھنٹے ان کے ساتھ گھر پر ہوتی ہیں ۔ ماں پر ہی ان کی تربیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ مائیں ہی بیٹیوں کو یہ کہتی ہیں کہ’’بیٹا، اس دنیامیں رہنا ہے تو لوگوں کوپرکھنا سیکھو، ہر کسی کے ساتھ اچھاسلوک کرواور اپنے فیصلے خود لینے سیکھو، کب تک ماں باپ کی انگلی پکڑ کر چلوگی؟ وغیرہ وغیرہ۔‘‘ جب یہی باتیں بیٹیوں پر اثر کرتی ہیں اور وہ اپنے اوپر اعتماد کرنا سیکھتی ہیں تو اردگرد رہنے والو ں کوان کی یہ باتیں اور عادات آنکھوں میں کھٹکنے لگتی ہیں ۔ مائیں بیٹیوں کے حق کے لئے بولیں تو معاشرہ اسے انہیں ’’بگاڑنے‘‘ کی زمرے میں لاکھڑا کرتا ہے۔ اگر لڑکیاں خود اپنے حق کے لئے آواز اٹھائیں تو لوگ انہیں ’’ماں کی بگاڑی ہوئی لڑکی‘‘ کے لقب سے پکارنے لگتے ہیں۔ اگر وہ سسرال جائیں اور انہیں کوئی ڈ ش پکانی نہ آتی ہو تو اس وقت بھی یہی کہاجاتا ہے کہ ’’ماں نے کچھ نہیں سکھایا، ایسے ہی سسرال بھیج دیا۔‘‘ ان تمام باتوں کو بغور دیکھیں تو معاشرے میں سالوں سے چلی آنے والی باتیں 21ویں صد ی میں بالکل اسی انداز میں دہرائی جارہی ہیں ،گزرتے سالوں نے ماؤں پر بیٹیوں کو بگاڑنے کے الزام کو روز اول کی طرح برقرار رکھا ہے۔ بیٹیاں ماں کا عکس ہوتی ہیں ، اس بات کے بارے میں اگر کسی لڑکی سے پوچھا جائے تو یقیناًاسے اس بات پر فخر ہی محسوس ہوگا، مائیں بیٹیوں کو بگاڑتی نہیں ہیں بلکہ انہیں جینے کے ڈھنگ سکھاتی ہیں ، اگر وہ نہ ہوں تو بیٹیوں کو جینے کا ڈھنگ زمانہ بہت بے دردی سے سکھاتاہے۔ وہ تمام لوگ جو دوسروں کی بیٹیوں کی باتیں بناتے ہیں، انہیں اپنے گھر کی طرف بھی دیکھنا چاہئے، انہیں یہ بات بخوبی یاد رکھنی چاہئے کہ ’’دنیا مکافات عمل ہے،اگر آج وہ کسی کی بیٹی کی باتیں بنائیں گے تو کل ان کی بیٹی کی باتیں کو ئی اور بنائے گا، کیونکہ دنیا گول ہے۔‘‘

Social Issues

women empowerment

social norms

girl hood

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div