عاصمہ جہانگیر اور انکے حامی و مخالف

تحریر: مہدی قاضی

قاضی واجد اور عاصمہ جہانگیر کا انتقال پُرملال ہوا۔ انسان کو ایک صدمے سے گزرنا مشکل ہوجاتا ہے لیکن گزشتہ دنوں ایک ہی دن دو تابندہ ستارے گہنا گئے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ انصاف کا تقاضہ کرنے والے عوام نے انتہائی ناانصافی سے کام لیا۔ جو چینل لگایا وہاں صرف ایک ہی نام تھا،عاصمہ جہانگیر۔ بیچ میں کہیں کہیں قاضی واجد کا ذکر بھی پایا مگربالکل ویسے ہی جیسے وقفوں کے درمیان زرا سا ڈرامہ ہوتا ہے۔

بہر کیف دو انسانوں کے جانے کا بہت رنج ہوا۔ ان کی آگے کی زندگی کا سفر کیا ہوگا، کیسا ہوگا یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ نہ میرے علم ہے نہ ہی مجھے اختیار ہے کہ محض اپنے اختلافات کی بنا پر لوگوں کی آئندہ زندگی پر قیاس کروں۔ افسوس اپنی جگہ لیکن یہ بات بہتر ہوئی کہ قاضی واجد صاحب زیادہ تذکرے میں نہیں آئے۔ کیونکہ توجہ کا مرکز بنی رہنے والی عاصمہ جہانگیر کو یاد کرنے والے دو متشدد گروہوں نے اس بات پر دیہان ہی نہیں جانے دیا کہ اس دن ایک اور ذات مکمل ہوئی ہے۔

جیسا کہ میں نےعرض کی کہ دو متشدد گروہوں نے خاتون کو ہر لمحہ یاد رکھنے کی کوشش کی۔ باخدا! سوشل میڈیا پر عاصمہ کے حامیوں اور مخالفین نے جو عاصمہ کے ساتھ کیا مجھے واقعی عاصمہ سے ہمدردی ہونے لگ گئی ہے۔ فیس بک اور ٹوئٹر پرانکے متعلق طرح طرح کا مواد پڑھ کر مجھے 'مدر انڈیا' کا گانا 'نہ میں بھگوان ہوں، نہ میں شیطان ہوں' یاد آگیا۔ ایک گروہ نے قسم کھا لی تھی کہ انہیں قبل الذکر مرتبے پر فائز کرنا ہے جبکہ دوسرا گروہ اس بات آمادہ تھا کہ انہیں عین آخرالذکر کے مطابق ثابت کرے۔ دونوں گروہ اپنی جنگ میں مسلسل ان کی بے حرمتی کیے جارہے تھے۔ یعنی آپسی بحث و مباحثے میں اس بات کو فراموش کردینا کہ وہ ایک انسان ہیں، ان کی عظمتوں کو رد کرنے کے مترادف تھا۔ ایسی باتوں کو لفظوں کی قید نہیں ہوتی بلکہ یہ سب تو رویے بیان کردیتے ہیں۔ سب نہیں لیکن ایک بڑی تعداد تھی جو ان کے مخالفین کو نیچا دِکھانے کیلئے پیش پیش تھی۔ دوسرا گروہ ان کے خلاف اپنا غصہ نکال رہا تھا۔ گویا اس موقع پر تہذیب کےسب دامن چاک کرتے ہوئے اس معاشرے کو سرِ راہ دیوانہ وار برہنہ رقص کرتے دیکھا۔ کچھ ایسے تھے جو ان پر فتوے لگا چکے تھے اور بعض کی گفتگو سے لگتا تھا کہ وہ پہلی وآخری تھیں جنہوں نے حقوقِ انسانی کی بات کی۔

ایک مشہور صحافی کے نام کا ٹوئٹ بھی سامنے آیا (معلوم نہیں وہ واقعی انہوں نے کیا ہے) جس میں انہوں نے مولویوں کے خلاف اپنا بغض عاصمہ کے کندھے پر رکھ کر نکالا اور بروزِ حشر عاصمہ کو گناہ گاروں کا مقدمہ لڑتے ہوئے بتایا۔ مجھے ذاتی طور پر اس بات سے شدید اختلاف ہے لیکن لوگوں کا کہنا ہے کہ مطلب وہ نہیں جو میں سمجھا۔ اس بات میں کیا لغوی معنی اور کیا اصطلاحی ہیں سب واضح ہے۔ کسی مشہور مفکر نے لکھا تھا کہ فنکار یا مصنف کے کچھ بنانے یا لکھنے کے بعد اس میں چھپے معنوں کا تعین کرنا مکمل طور پر فن پارہ دیکھنے یا نسخہ پڑھنے والے کہ کاندھوں پر ہوتا ہے۔ پرافسوس! پاکستان کی فنکار برادری تخلیقی اعتبار سے مسلسل تنزلی اور ابتری کا شکار کیوں ہے مجھے اُس روزسمجھ آہی گیا جب فنکار خود ہی بیٹھ کر معنوں کا تعین کرنے لگے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی تخلیق اور نظریے پر شرمندہ ہے۔

بہر حال عاصمہ معروف قانون دان اور ایک نظریاتی شخصیت تھیں۔ ساتھ ساتھ میرا خیال ہے کہ وہ، ان کی موت پرغم کرنے والے ان کے حامیوں سے یکسر مختلف بھی ہوں گی۔ مجھے بھی ان سے نظریاتی اختلافات تھے لیکن ان کے حامیوں کو میں ایک بات کہنا چاہوں گا کہ ہم بڑے کاہل لوگ ہیں۔ آرام پسندی ہمارے رگ پٹھوں میں بیٹھ گئی ہے۔ نظریاتی اختلافات درست لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ انہوں نے ان نظریات کی خاطر مشکلات کا سامنا کیا ہوگا۔ لیکن کیونکہ ان کی بات بظاہر مقبول اور بِکنے والی تھی اس لئے ان کے پیروؤں نے اس نظریے کے اساس کو سمجھے بغیر ہر چیز کو روندھ ڈالنے کی کوشش کی، کیا مذہب اور کیا سماج۔ اور کیوں سمجھتے وقت اور توانائی جو خرچ ہوتی۔ عاصمہ سمجھدار خاتون تھیں انہیں اپنی حدود کا اچھی طرح علم تھا۔ انہوں نے کبھی یہ بات نہیں کی ہوگی کہ بروزِ قیامت وہ گناہ گاروں کے مقدمے لڑیں گی، پر ان کے چاہنے والے تو یہ تقاضہ کر بیٹھے ہیں۔ مگر حالات نے بھی خود کو عجیب طریقے سے منوایا ہے، فیصلے کے دن کیا ہوگا یہ تو تب ہی معلوم ہوگا لیکن اس حقیقت سے اب کوئی فرار اختیار نہیں کرسکتا کہ مرحومہ کی آخرت کے سفر پر روانگی یعنی نمازِ جنازہ کیلئے دنیا میں ایک عدد مولوی کی ضرورت پڑ گئی تھی، جن کیلئے صحافی  موصوف نے سیخوں پر بھونونے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اب یہ انہوں نے کیوں کہا ہے یہ بات وہی بتا سکتے ہیں۔ ہم نے ایسا تقاضہ کبھی نہیں کیا۔ ہم تو عاصمہ جہانگیر کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔

death

WOMAN

lawyer

criticism

Rightist

Liberals

Qazi Wajid

opponents

Tabool ads will show in this div