پابندی کا معیار کیا ہے؟

۔۔۔۔۔** تحریر : راجہ کاشف جنجوعہ **۔۔۔۔۔
اینکر کے لبوں سے الفاظ نکلتے ہیں تو ناظرین متاثر ہوئے بنا نہیں رہتے، عجب منظر ہوتا ہے گھر میں قدم رکھتے ہی مرد چینل پر پسندیدہ اینکر کے تجزیے سننے لگتے ہیں، گھر میں ایک سے زیادہ ٹی وی کا رواج بھی اسی سبب پڑا تاکہ جس کا جو دل چاہے وہ دیکھے، مگر ایسا بھی نہیں کہ دنیا الگ الگ ہو، کئی مرتبہ تو عورتیں بھی حکومت جانے کی خبر پر کان دھرے ہوتی ہیں، خواتین کا رجحان بھی خبر پر اتنا ہی ہے جتنا مرد حضرات کا، مانا کہ خواتین ڈراموں کی طرف واپس لوٹ رہی ہیں مگر پھر بھی ٹاک شوز کے ہنگامے سب پر بھاری ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب انٹرٹینمنٹ کی اہمیت تھی، پھر نیوز انڈسٹری نے اس کی جگہ لے، ایسا کاروبار جس کے اصول نہیں، ایسا بے لگام گھوڑا جو صرف ریس جیتے پر یقین رکھتا ہے، اس کی عکاسی کبھی رن فلم کی صورت میں سامنے آتی ہے اور کبھی پپلی لائیو کی صورت میں، جیسے فلم میں اسٹار ہوتے ہیں ایسے ہی نیوز میں کوئی سلطان راہی ہے تو کوئی بابر علی۔ سلطان راہی نے کہا تھا یہ شادی نہیں ہوسکتی مگر اینکرز کہتے ہیں یہ حکومت نہیں رہ سکتی۔
ذہن یہ سوچتا ہے کہ فی زمانہ اینکرز اسلام آباد کی سڑک کنارے اگنے والے خود رو پودوں کی طرح پولن ہوا میں اڑاتے ہیں مگر اینکر الرجی ملک بھر میں پھیل رہی ہے جو لاعلاج ہے، اینکر بننے کے حوالے سے مشاہدے میں آیا ہے کہ مالکان تک اپروچ کر سکیں تو ہی آپ کا آڈیشن ممکن ہے، کالم نگاری کیلئے مالکان تک اپروچ ضروری نہ تھی میرٹ پر بھی چھپتے مگر چینل میں ایسی مثالیں قدرے کم ہی ملتی ہیں۔

اخبار میں نیوز اور ویوز کے حصے ہوتے تھے، کالم ویوز میں شامل تھے، کالم نگار کیلئے صحافی ہونا ضروری نہیں اور نہ ہی صحافی کیلئے کالم نگار ہونا، حالات بدلے کالم کی جگہ پروگرام اور کالم نگار کی جگہ پروگرام اینکر نے لے لی۔
جتنی شہرت ڈاکٹر عامر لیاقت کے حصے میں آئی اس کا لاکھواں حصہ کسی کے حصے میں آئے تو وہ پاپولر اینکر کہلائے، پاکستان کا سب سے بڑا مذہبی اسکالر تک کے خطاب پانے والا اینکر، جس نے جب چاہا ریٹنگ کی دنیا میں انقلاب برپا کیا، مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب ایک عمارت سے دوسری عمارت جاتے ہوئے فٹ پاتھ پر چلتے کلین شیو عامر لیاقت پر میری نگاہ پڑی، شہرت کی وادی میں قدم جماتے ان میں جوش تھا جو اٹھتے قدموں میں نمایاں تھا۔
دوسری طرف زیادہ ڈیمانڈ جس کی رہی وہ صرف ڈاکٹر شاہد مسعود ہی ممکن ہیں، زمانہ لاکھ برا کہے مگر ایسا کردار جس نے نوعمری میں اسٹوڈنٹ سیاست میں سیاست کے ستونوں کو قریب سے دیکھا جو میڈیا کے سند یافتہ کو بھی نصیب نہیں ہوتا، طب میں تعلیم کے باوجود ان کی دلچسپی سیاست میں برقرار رہی، جو انہیں اینکر بننے کی طرف لے گئی، میرے کانوں میں ایک اینکر کے الفاظ گونجتے ہیں ’’ہمارے چینل نے شاہد مسعود کو توڑ لیا ہے‘‘ ہمیشہ اپنے اینکر تیار کرنیوالے چینل نے ایسا کیا تو سوچیں شاہد مسعود کی کیا اہمیت ہوگی۔

وہ سوال اٹھائیں جن کی اپنی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا ہو تو عجب سا لگتا ہے، عامر لیاقت یا شاہد مسعود کو یہ کہہ کر پابند کیا جائے کہ وہ صحافی نہیں یا ان کے پاس صحافت کی ڈگری نہیں تو یہ ناانصافی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا، جیسے کسی بھی کالم نگار یا بلاگر کی ایک رائے ہے، جس سے اخبار یا ویب سائٹ کا متفق ہونا ضروری نہیں، ایسے ہی اینکر کی رائے سے بھی چینل کا متفق ہونا ضروری نہیں، جیسے ہر کوئی ارشاد احمد حقانی کی طرح صحافی و کالم نگار نہیں بن سکتا، ایسے ہی ہر رپورٹر اینکر نہیں ہوسکتا اور بن بھی جائے تو پاپولر ہونا سب کا کام نہیں، مقبولیت کا تعلق کسی رسمی ڈگری سے نہیں۔
خواب سجاکر میڈیا انڈسٹری میں آنے دیں جو جگہ بنائے گا وہ رہے گا، مجھے عامر لیاقت سے اختلاف ہے شاہد مسعود کی گفتگو میں ربط نہیں دکھتا مگر کیا کروں راجہ وہی جسے پرجا چاہے، میں حقائق سے کیسے منہ موڑوں، میں سچ کو کیسے جھٹلاؤ۔ چینلوں پر ضابطے تشکیل دیں نہ کہ پابندی کی زنجیر میں جکڑیں، آپ کے ہاتھوں میں ریموٹ کنٹرول ہے جو پل میں کسی کو پاپولر اور کسی کو غائب کر سکتا ہے تو ہاتھ بڑھائیں اور بدل دیں بہتے لفظوں کا دھارا، سوچئے گا ضرور۔