محبتوں کا عالمی دن، نہال ہاشمی اور دردِ دل

محبتوں کے عالمی دن کا مہینہ جیسے ہی شروع ہوتا ہےایک بحث سی چھڑ جاتی ہے کہ اس دن کو منانے سے کیسے روکا جائے یا اس دن کی حوصلہ شکنی کیلئے کیا حربہ اپنایا جائے۔ معذرت کے ساتھ اگر یہ چیزیں جبری طور پر روکنے کی کوششیں کی جائیں تو عموماً ناکامی ہوتی ہے۔بقول غالؔب " عشق پرزور نہیں ہے یہ وہ آگ غالؔب، جو لگائے نہ لگےاور بجھائے نہ بنے"۔ بے شک شعر میں عشق کا مفہوم کہیں گہرا ہے اور جن معنوں میں استعمال کررہا ہوں وہ انتہائی سطحی ہیں۔ لیکن پھر بھی ان جذبات کو زبردستی ابھارنا یا بزوردست دبانا کسی کے بس کی بات نہیں اور ہونی بھی نہیں چاہیئے۔یہ معاملات آزادرہیں اس ہی میں بہتری ہے،ہاں بس اپنی سی ایک کوشش کرنےمیں کوئی مضائقہ ۔
مہینہ شروع ہوتے ہی سننے میں آیا کہ محبتوں کا عالمی دن منانے پر پابندی لگ گئی ہے۔ لیکن یہ تو غالؔب پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ یہ آگ نہ لگانے سے لگتی ہے نہ بجھانے سے بجھتی ہے۔ ظاہری طور پر عمل تو روک دیا گیا لیکن کیا باطن سے اس مرض کی شفا کیلئے دوا کی گئی، یہ بتانا مشکل ہے۔
محبتوں کے عالمی دن کے مہینے کی ابتداء نہال ہاشمی کے توہین عدالت کے مقدمے سے ہوئی جس میں انہیں ایک ماہ کی قید، 50ہزار روپے جرمانہ اور پانچ برس کیلئے نااہل کیا گیا۔یقین جانئے میں اس دن کی حقیقت کو نہیں مانتا تھا لیکن نہال ہاشمی نے مجھے یہ بات باور کراہی دی کہ عشق میں انسان چاہے کتنا کام کا ہی کیوں نہ ہو نکما ہوجاتا ہے۔ مخالفین لاکھ برا بھلا کہیں مگر دردِ دل نے ہی انہیں یہ دن دِکھایا ہے اور پھر حوالات میں پہنچتے ہیں اسپتال جانا پڑ گیا۔ سننے میں آرہا ہے کہ ان کے دل میں درد کا معاملہ حیلہ نکلا لیکن مجھے لگتا ہے نہال ہاشمی صاحب جس دردِ دل کی بات کررہے تھے وہ یہ نہیں تھا جس نے انہیں سلاخوں کے پیچھے کروادیا اور بعد ازاں دردِ دل کی کیفیت میں اسپتال میں داخل کردیئے گئے لیکن اسپتال والوں نے انہیں چند ٹیسٹ کرنے کے بعد ہی خارج کردیا۔بلکہ جس درد کی وہ بات کررہے ہیں وہ تو مشینوں کی پیمائش سے قطعی طور پر باہر ہے۔ مزید یہ کہ اس درد کی تو کوئی دوا ہی نہیں۔

گزشتہ سے پیوستہ برس محبتوں کے عالمی دن پر لکھا تھا کہ محبت قول سے نہیں عمل سے دِکھائی جاتی ہے،جیسے ونسنٹ وین گوف نے دِکھائی تھی۔ مختلف روایات میں مختلف بیانات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ گوف نے اپنے دوست کی محبت میں اپنا کان کاٹ لیا تھا۔ نہال ہاشمی نے بھی کچھ ایسا ہی کیا ہے۔محبت کے دعوے بھی کیے اور غمزدگی میں اپنی رگیں بھی کاٹ لیں(استعارہ کے طور پر استعمال کیا ہے)۔ آپ کو لاکھ اختلاف لیکن میاں صاحب کی اولاد سے زیادہ محبت اور وفا داری نبھائی۔ یہ بات تاریخ یاد رکھے گی کے والد کو بچانے بچے تو میدان نہیں آئے لیکن ایک کارکن نے میاں صاحب کی نااہلی کا غم خود نااہل ہوکر منایا۔
بہر کیف یہ بحث اس دائرے سے تو باہر نکل گئی کہ آیا یہ دن منایا جائے یا نہیں۔ کیونکہ ایک دن پر پابندی لگا نے سے کیا لوگ محبت کرنا چھوڑ دیں گے۔ہاں یہ عین ممکن ہے کہ پابندی کے ساتھ ساتھ تربیتی نشستیں بھی ہوں اور اس بات کو واضح طور پر سمجھایا جائے کہ جن کی کچھ اخلاقیات نہیں ہوتیں صرف ان کیلئے محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے اور ان سے پوچھا جائے کہ اس متعلق ان کا کیا خیال ہے۔ میرا خیال ہے تربیت اچھی ہو تو پابندیوں کی نوبت نہیں آتی۔