پاکستان پر پابندی ختم کی جائے یا نہیں؟بل امریکی سینیٹ میں پیش

واشنگٹن : امریکی پارلیمنٹ میں پاکستان کے خلاف قومی دفاعی بل پاس ہونے کے بعد بل امریکی سینیٹ میں پیش کردیا گیا ہے، اس سے قبل بل کے حق میں 344 اور مخالفت میں 81 ووٹ ڈالے گئے تھے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز اور اے ایف پی کی جانب سے جاری رپورٹس کے مطابق پاکستان کی دفاعی امداد سے متعلق ایک بار پھر امریکی ایوانوں میں بحث چھڑ گئی ہے کہ پاکستان کو دی جانے والی امداد پر پابندی برقرار رہے یا امداد جاری کردی جائے۔ امریکی کانگریسی رہنما مارک سین فورڈ اور تھامس ماسی نے پیش کیا، مارک سین فورڈ نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ امریکی ٹیکس دہندگان کی رقم سے دہشت گردوں کو نوازا جانے کا سلسلہ بن کیا جائے اور مذکورہ امدادی رقم کو ہائی وے ٹرسٹ فنڈ میں شامل ہونا چاہیے جس سے ترقیاتی کام ہوسکیں۔

امریکی ارکان پارلیمنٹ نے سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کی، دوسری جانب امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی عسکری امداد معطل کر چکے ہیں۔ چند ماہ قبل امریکی پارلیمنٹ میں قومی دفاعی پالیسی بل 2018 منظور ہوا جس میں امریکی اسٹیٹ ڈپارنمنٹ اور یو ایس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈولپمنٹ (یو ایس ایڈ) کی جانب سے پاکستان کی امداد پر پابندی کا تقاضہ کیا گیا ہے، بل کے حق میں 344 اور مخالفت میں 81 ووٹ ڈالے گئے۔ ایوان زیریں میں پیش کیے جانے والے بل میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پاکستان کی غیر عسکری امداد بھی بند کی جائے اور وہ تمام رقم امریکا کے ترقیاتی شبعوں میں لگائی جائیں۔ بل پیش کرنے والوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ‘وہ پاکستان کی عسکری امداد پر پابندی کا تقاضہ اس لیے کررہے ہیں کیوںکہ پاکستان دہشت گردوں کو ‘ملٹری امداد اور انٹیلی جنس’ فراہم کرتا ہے مذکورہ الزام کو پاکستان نے قطعی رد کیا ہے۔ پاکستانی حکام کے مطابق امریکا، افغانستان میں بڑھتی ہوئی شرپسندی کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے اور اسی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے۔

 

دوسری جانب امریکی نائب وزیر خارجہ جان سالیون نے سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان اپنی سرزمین پر تمام شدت پسند گروپوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے حتمی کارروائیاں کرتا ہے تو امریکا معطل کی گئی امداد بحال کرنے پر رضا مند ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین پر بلاتفریق تمام شدت پسندوں کے خاتمے کے امریکی تحفظات کو دور کردے تو واشنگٹن سنجیدگی سے امداد بحال کرنے پر غور کرے گا۔

جان سالیون نے کمیٹی کو بتایا کہ امریکا نے اب تک پاکستان کی جانب سے متحرک شدت پسند گروپوں کے خلاف ٹارگٹڈ کارروائیوں کو نہیں دیکھا اور نہ امریکی مطالبات کے مطابق ان گروپوں کے خلاف کارروائیوں کے ثبوت ملے۔

واضح رہے کہ امریکا نے گزشتہ ماہ حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے خلاف آپریشن نہ کرنے کا الزام عائد کرکے سیکیورٹی کی مد میں دی جانے والی 9 سوملین ڈالرز کی امداد روک دی تھی، جب کہ رواں سال کے آغاز کے پہلے روز ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹوئٹ کے ذریعے پاکستان پر دہشت گردوں کو معاونت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خاطر خواہ کام نہ کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

امریکی امداد روکنے پر پاکستان نے واضح کیا تھا کہ اسے کسی کی امداد کی ضرورت نہیں بلکہ امریکا کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف پاکستانی قربانیوں کا صرف اعتراف چاہتے ہیں۔ سماء

TALIBAN

bill

haqqani network

Tabool ads will show in this div