کشمیر ہے جنت
یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان میں ایک ہی سرکاری ٹی وی چینل ہوا کرتا تھا، نو بجے کا خبرنامہ رات کے کھانے کے دوران سُنا جاتا جس میں سرکار کے علاوہ صرف کشمیر کی ہی ایک خبر ایسی ہوتی تھی جو روزانہ کی بنیادوں پر نشر ہوا کرتی کشمیر میں کتنے لوگ شہید ہوئے۔
احتجاجی ریلی یا جلوس کس کی طرف سے نکالا گیا بھارتی جارحیت کا مقابلہ کمزور اور نہتے کشمیری کسطرح کر رہے ہیں بھارتی فوجی کشمیری ماؤں بہنوں کیساتھ کیسا ناروا سلوک رکھے ہوئے ہیں بزرگوں اور بچوں کو کیسے تشدد کا سامنا ہے
یہ اور اسطرح کی کئی خبریں کشمیر کے ہونے کا احساس دلایا کرتیں تھیں بھارتی فوجی کشمیری خواتین سے بدتمیزی کرتے دکھائے جاتے تو قدرتی طور پر کشمیریوں کیلئیے دل میں احساسِ ہمدردی اور ہندوستانی افواج کیلئیے دل میں نفرت کا جذبہ جاگتا، صرف یہی نہیں بلکہ یومِ یکجہتئی کشمیر کے علاوہ بھی گاہے بگائے کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کیلئیے ترانے پیش کئے جاتے، پروگرام نشر ہوتے ، اور ایک یاد دہانی رہتی کہ ہمارے نہتّے کشمیری بہن بھائی انتہائی مشکلات کے باوجود اپنی آزادی کیلئیے میدان میں ہیں پھروقت بدلا اور ٹی وی چینلز کی تعداد میں اضافہ ہوا تو بجائے اسکے کہ کشمیر کے مسئلے کو مزید بھرپور طریقے سے اجاگر کیا جاتا پہلے والا مختصر دورانیہ بھی دیگر تفریحی پروگراموں میں دب کر رہ گیا۔ نہ پی ٹی وی کے ناظرین کا تناسب وہ رہا نہ دلچسپی اور دیگر پرائیوٹ چینلز کیلئیے تو ویسے بھی یہ ریٹنگ والا آئٹم نہیں تھا جسکے نتیجے میں ہوا یہ کہ کشمیر کا مسئلہ حکومتی سطح پر تو بے توجہی کا شکار تھا ہی مگر عوامی سطح پر بھی لوگوں نے اسکے بارے میں زیادہ سوچنے سے گریز ہی برتا جسکے نتیجے میں وہ کشمیر جسے قائدِ اعظم نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا نظرانداز ہوتا چلا گیااور اسقدر نظرانداز ہوا کہ آجکل کے بچوں میں سے شاید بہت ہی کم بچوں کو مسئلہ کشمیر کی بنیادی روح کا علم ہو۔

سرکاری اور حکومتی سطح پر اگر کشمیرکی آزادی کیلئیے کئے گئے اقدامات کو دیکھیں تو سخت افسوس ہوتا ہے کہ سال میں ایک بار تعطیل ، بیانات ،اقوامِ متحدہ میں گنتی کی تقاریر اور کشمیر کمیٹی بنانے کے بعدسمجھا گیا کہ گویا حق ادا ہو گیا اور پانچ فروری اگر اتوار کے روز آ جائے تو خود عوام کو زیادہ بے چینی کشمیریوں کی جدوجہد پر نہیں بلکہ اپنی ایک چھُٹی ختم ہو جانے پر ہوتی ہے اور اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمیں آنکھ کھولتے ہی آزادی جیسی نعمت ملی ہم نہیں جانتے کہ کسی کے تسلط میں رہنے کا عذاب کیا ہے اور ایسی صورت میں جبکہ آزادی کی کوئی کرن تک دکھائی نہ دیتی ہو اور یقین جانئیے کہ اگر کشمیر کمیٹی کے ارکان خود ایمانداری سے سوچیں تو انہیں احساس ہوگا کہ آج تک سوائے تنخواہیں لینے کے وہ کوئی قابلِ ذکر کام نہ کرسکے۔
ہمیں یہ بات ماننی ہوگی کہ مولانا فضل الرحمٰن مضبوط سیاسی حیثیت کے باوجود نہ صرف کشمیر کمیٹی کو فعال کرنے اور کشمیریوں کے حق میں کوئی بھی قابلِ تحسین کام انجام دینے میں ناکام رہےبلکہ دنیا کو یہ تک باور نہیں کروا سکے کہ آخر بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کیوںکر کہا جائے جبکہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی سات لاکھ فوج کشمیریوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعینات ہے جو کہ دنیا بھر کی تاریخ میں کسی بھی آبادی پر فوج کا سب سے بڑا اجتماع ہے حالانکہ تیس اپریل انیس سو سینتالیس کو بھارت کےوزیرِ اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے لیاقت علی خان مرحوم کو بھیجے گئے سرکاری ٹیلی گرام میں یہ اعلان کیا تھا کہ جیسے ہی امن ہوتے ہی حالات کچھ بہتر ہوں گے ہم کشمیر سے اپنی تمام تر افواج نکال لیں گے اور پھرکشمیریوں کو بھارت یا پاکستان کیساتھ الحاق کے فیصلے کا مکمل اختیار ہوگا لیکن نہ نو من تیل ملا نہ رادھا ناچی۔

کشمیر کے حالات ہیں کہ بدستور کشیدہ چلے آ رہے ہیں اب تک کئی سہاگنوں کی مانگ اُجڑی بیشمار بچے یتیم ہوئےکئی بوڑھے والدین کی بینائی جوان بیٹوں کے غم میں روتے ہوئے ختم ہوئی مگراب تک دنیا کےمنصفوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی،بھارت کے نزدیک اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی کوئی خاص اہمیت اس لئیے بھی نہیں ہے کہ آج تک بھارت کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی ترقی پذیر ممالک میں ہم لوگ قانون سب کے لئے ایک نہ ہونے کا رونا رہتے ہیں جبکہ یہ شیوہ تو دنیا کی سب سے بڑی عدالت کابھی ہے جہاں کشمیر کے معاملے پر آج تک بھارت اپنی من مانی کرتا چلا آ رہا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ سلسلہ کب رکے گا۔
ان حالات میں میں اللہ کی رحمت سے ہر گز نا امید نہیں کیونکہ جب سوچتی ہوں کہ کسی بھی قسم کی سیاسی حکمت عملی یا سفارتی کوششوں کے بغیر یہ مسئلہ شاید تا دیر حل نہ ہوسکے تب ذہن کے پردے پر شہید برہان وانی کا چہرہ ظاہر ہوتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے کہتا ہو کہ سیاست پر نہیں شہادت پر یقین رکھیں کیونکہ خطہ کشمیر کا ایک ایک بچہ برہان وانی ہے اورہر بچے کے ذہن پر نقش ہے کہ
یارانِ جہاں کہتے ہیں کشمیرہے جنت جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی
واقعی کشمیر جنت نظیرہےاور میری دعا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں کشمیرکا یومِ آزادی منا کر اس جنت کے مکینوں کو آزادی کیلئیے انکی لازوال جدوجہد پر خراجِ تحسین پیش کر سکیں۔