جھوٹی خبر کا دھندہ

۔۔۔۔۔**  تحرير: محمد لقمان  **۔۔۔۔۔

ايک وقت تھا کہ پاکستان کے اخبارات میں سال ميں صرف ايک مرتبہ پہلے يا آخری صفحہ پر ايسی خبر چھپتی تھی، جس کا حقيقت کے ساتھ کوئی تعلق نہيں ہوتا تھا، مثلاً عالمی کپ چوری ہوگيا، فلاں نے فلاں سے شادی کرلی، يکم اپريل کو شائع ہونیوالی خبر کے آخر ميں لکھا ہوتا تھا، يہ اپريل فول کا مذاق ہے اور اس پر معذرت بھی کی جاتی تھی، مگر وقت کے پہيے نے ايسا چکر کھايا کہ اب دن ميں ٹی وی چينلز اور اخبارات ميں ايسی متعدد خبريں چھپ جاتی ہيں يا چل جاتی ہيں، جن کا کسی طور پر بھی حقيقت سے کوئی تعلق نہيں ہوتا، رہی سہی کسر سماجی رابطے کی ويب سائٹس پر غلط خبريں پوری کرديتی ہيں، کسی کی کردار کشی کرنی ہو تو اس کیلئے ايسا ہیش ٹيگ شروع ہوجاتا ہے، جس میں بغیر کسی ثبوت کسی شخص یا ادارے کو ٹارگٹ کردیا جاتا ہے، بڑی بات یہ ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد اس پر يقين کرليتی ہے، بعد میں یہی جھوٹی خبر يا معلومات افواہ سے سنجيدہ خبر کا روپ دھار ليتی ہيں۔

ماضی ميں جب بھی کوئی رپورٹر يا صحافتی ادارہ غلط خبر دينے کا مرتکب ہوتا تھا تو وہ ناصرف قارئین يا ناظرين سے معافی مانگتا تھا بلکہ خبر دينے والے کو سزا بھی ملتی تھی، مگر اب غلط خبر دينے کے بعد بھی صحافی اتراتا پھرتا ہے، ادارے بھی کچھ زيادہ برا محسوس نہيں کرتے۔

اس کی حاليہ مثال ايک نجی ٹی وی اينکر کی طرف سے زينب زيادتی کيس کے ملزم عمران علی کے 37 اکاؤنٹس کے بارے ميں خبر ہے، جن لوگوں نے قصور ميں ملزم کا گھر اور رہن سہن ديکھا، وہ کسی طور پر بھی خبر پر يقين نہيں کرسکتے، مگر ٹی وی اينکر مُصر ہيں کہ خبر بالکل درست ہے، پہلے نيوز روم کے دربان يعنی ايڈيٹرز کسی خبر کو چھاپنے يا آن ایئر کرنے سے پہلے پوری جانچ پڑتال کرتے تھے مگر مقابلے کی دوڑ ميں کسی کے پاس اتنا وقت نہيں ہوتا کہ وہ خبر کی درستگی کے بارے ميں پورا يقين کرلے بلکہ خبر کو مزيد تيز کرکے صفحہ اول يا بريکنگ نيوز ميں ڈال ديا جاتا ہے۔

خبر غلط ثابت ہوجائے تو اسکرين سے ايسے غائب ہوجاتی ہے جيسا کہ ماضی ميں سليٹ پر لکھے ہوئے حروف صاف کردیئے جاتے تھے، ايسی خبروں پر کئی مرتبہ ردعمل بہت شديد ہوتا ہے، رد عمل دينے يا تبصرہ کرنے والوں کو بھی عموماً پتہ نہيں ہوتا کہ جس خبر کی حمايت يا مخالفت کررہے ہيں وہ درست بھی ہے يا نہيں، اس کی بہت بڑی مثال 2016ء ميں ايک غير ملکی ويب سائٹ پر اسرائيلی وزير دفاع کے بارے ميں شائع ہونیوالی جھوٹی خبر تھی، جس ميں اس نے پاکستان پر حملے کی دھمکی دی تھی۔ اس کے جواب ميں پاکستان کے موجودہ وزير خارجہ اور سابقہ وزير دفاع خواجہ آصف نے ٹوئٹ کيا کہ پاکستان ايک ايٹمی طاقت ہے اور اسرائيل کو پورا جواب ديا جائے گا۔

ايک غير معروف ويب سائٹ پر آنیوالی خبر پر ناصرف يقين کيا گيا بلکہ اس پر رد عمل بھی ديا گيا، ہمارے کئی ديگر سياستدان بھی ايسی غير تصديق شدہ  خبروں پر يقين کرتے ہوئے ايسا ايسا رد عمل دے ديتے ہيں کہ ان کو خبر کی ترديد کے بعد اپنی پوزيشن کا دفاع کرنے ميں مشکل آتی ہے، ایسی صورتحال صرف پاکستان ميں ہی نہيں دنيا بھر ميں پیدا ہوئی، جھوٹی خبروں سے بڑے بڑے لوگوں کی پگڑياں اچھال کر شہرت اور پيسہ کمایا جاچکا ہے، متاثرين ميں امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سر فہرست ہيں، جن کا ہر وقت کسی نہ کسی امريکی اخبار یا چینل سے جھگڑا رہتا ہے۔

آخر جھوٹی خبر کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے، سب سے پہلے صحافی کو کوئی بھی خبر نيوز روم کو دينے سے پہلے اس کے درست ہونے کے بارے ميں پوری طرح جانچ پڑتال کرلينی چاہئے، اگر اس کیلئے دستاويزی ثبوت کی ضرورت ہو تو ان کی فراہمی بھی یقینی بنانی چاہئے، يہاں نيوز روم بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے، نيوز روم ميں ايسے لوگ ہونے چاہئیں جو کہ تجربہ کار اور جانتے ہوں کہ خبر کی جانچ کیلئے کون سے ذرائع استعمال کئے جاسکتے ہيں۔ جب اينکر کی باری آتی ہے تو وہاں سينئر لوگ اپنا کردار ادا کرسکتے ہيں، ادارے کو بدنامی سے بچانے کیلئے کچی پکی خبر کو روک دينا ہی بہتر ہے۔

جھوٹی خبر کے تعين ميں مدد کیلئے گوگل نے بھی کئی ايسے پلگ ان متعارف کروائے ہيں، جن سے خبر کی درستی کا اندازہ لگايا جاسکتا ہے، بات صرف نيت کی ہے، اگر کوئی غلط خبر پھيلانے سے بچنا چاہتا ہے تو اس کیلئے کئی راستے ہيں، ورنہ سستی شہرت کیلئے کوئی بھی شخص کسی بھی سطح تک جاسکتا ہے۔

JOURNALIST

fake news

Electronic Media

private channels

Tabool ads will show in this div