میری گلیاں
تحریر: ثناء انعام
بچپن ميں کراچی آنے کی الگ ہی خوشی تھی، ائیرپورٹ سے اترتے ہی ماں کے جسم جیسی خوشبو اپنی لپیٹ میں لے لیتی تھی، اپنے محلے نارتھ ناظم آباد میں يوکليپٹس سے ڈھکی سڑک پرہلکی ہلکی خوشگوار ہوا میں ٹہلتے ۔۔۔ سائیکل چلاتے اندر تک ترو تازہ ہو جاتے تھے،، لیکن آج پندرہ سال بعد ان ہی سڑکوں سے گزرتے شديد اذيت سے دوچار ہوتی ہوں۔۔۔
نارتھ ناظم آباد کا علاقہ انیس سو اٹھاون میں اس وقت وجود میں آیا جب کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ نے یہاں وفاقی حکومت کےملازمین کے لیے رہائشی منصوبہ شروع کیا۔ سردار مستی خان بروہی سے زمین خرید کر پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کے نام پر اسکا نام ناظم آباد رکھا گیا۔ اسے اطالوی آرٹیٹکچر،،، کارلو اسکارپا اور پلانرآلڈو روسی نے ڈیزائین کیا۔ انیس سو ساٹھ میں جب دارلخلافہ یہاں سے اسلام آباد منتقل ہوا تب بھی نارتھ ناظم آباد کا یہ علاقہ شہر کا جدید اور حسین علاقہ تھا۔
آج یہاں روز سفر کرتے عجیب تجربات سے گزرنا پڑتا ہے،،، پہاڑ گنج کے ايک طرف ہے اصغر علي شاہ اسٹيڈيم۔۔۔۔ جسے کھيل، صحت و فٹنس کے ساتھ ساتھ تفريح کےليے بنایا گیا ليکن ڈاکٹر صاحب کے انتقال کے ساتھ ہی اس جگہ کے ساتھ يتیموں سا سلوک شروع ہوا۔ پہلے علاقےکا کوڑا اسٹیڈیم کی دیوار کے پاس پھينکا جانے لگا۔ پھر بڑھتے بڑھتے یہ کچرا پہاڑ کي صورت اختيار کرگيا۔ بلديہ نے مزيد ترقی کی، تو فخر سے اس پر ويسٹيج ٹرانسفر ڈپو کا بورڈ لگا ديا گيا۔ کيا ضلع وسطی ميں کوئی ايسا بااثر، باضمير شخص نہيں جو محکموں سے پوچھے کہ کس طرح آبادی کے بيچوں بيچ غلاظت کا ڈپو بنا ديا گيا؟؟؟
آئيے اب ذرا سڑک کے دوسرے پار چلتے ہیں،، جہاں بے شمار گاڑيوں کی ورک شاپس ہيں،، ان کے پاس زائد زمين ہے،،، نہ ہی کوئی ميدان یہاں ڈینٹر اور پینٹر اپنے ہنر کے جوہر سڑک کنارے ہی دکھاتے ہيں۔ گاڑياں اور رکشے تو شايد ٹھيک ہو جاتے ہوں ليکن اس ورکشاپس کی وجہ سے شارع نور جہاں تيل،، کيميکلز پی پی کر ختم ہو چکی ہے۔ اس روڈ پر سفر کريں تو محسوس ہوتا ہے کہ ديوسائی کا پہاڑی سفر طےکر رہے ہيں۔ فرق بس اتنا سا کہ جھرنوں آبشاروں کی جگہ ابلتے گٹر اور پہاڑ کا کريڈٹ کچرے کے ٹيلے لے جاتے ہيں۔ اونچے نیچے گڑھوں ميں سڑک ڈھونڈنی پڑتی ہے۔
فائيو اسٹار شروع سے ہی ریستورانوں کی وجہ سے فوڈ کارنر کا درجہ رکھتا تھا۔ پھر جب آہستہ آہستہ یہاں معياری فوڈ اسٹريٹ بنی تو ہم سب ہی خوش تھے ليکن جہاں کھانے پينے کی آسانی ہوئی وہيں لوگوں کی ازلی بے حسی بھی سامنے آئی۔ ہر ريسٹورنٹ کے آگے کچرے کے ڈھير پڑے رہتے ہیں۔ دھلی دھلائی دکانوں کا پانی بھی روڈ پر ہی جمع رہتا ہے اور آتے جاتے لوگوں کو تنگ کرتا ہے۔ ان ہی فٹ پاتھس پر بیٹھ کر،، آس پاس سے نظريں چرا کر آوٹنگ کرتے اور کھابے کے مزے اڑاتے ہيں۔ واہ ہمارے پاکیزہ کھانے۔ رہی سہی کسر نواز شريف نے گرين لائن کی بنياد رکھ کر پوری کردی۔ بلاشبہ سفری سہولتوں سے محروم اہل کراچی کیلئے یہ ایک انمول منصوبہ ہے لیکن کراچی کی کشادہ ترين شاہراہ شیرشاہ سوری کا ترقی کے نام پر وہ حشر کيا گیا ہے کہ اب يہ کھنڈر ہی لگتی ہے، پاکستان دنيا کا وہ واحد ملک ٹہرا جہاں بسوں کے ليے ٹريک بچھائے جاتے ہيں۔ تمام ترقی یافتہ ممالک ميں بسيں سڑکوں کے ایک کنارے ہی چلتی ہيں، يہ لائنز تو صرف ٹرينز کے ليے بچھائی جاتی ہيں۔۔۔ ليکن کرپشن کے امتحان ابھی اور بھی ہيں۔
علاقے کے بےشمار پارکس ہماری نظروں کے سامنے اجاڑ دئیے گئے۔ بیشتر پارکوں میں رہائشی منصوبے کھڑے کر دئیے گئے۔ علاقہ مکین درخواستيں ديتے ہی رہ گئے۔ اين جي اوز چيختی رہ گئیں لیکن شہر کے رکھوالوں کا نعرہ لگانے والوں نے ہی اس شہر کے باسیوں اور اسکے پھول جیسے بچوں پر کھیل اور صحت و تفريح کے سب دروازے بند کر ديے۔ چائنہ کٹنگ مافیا کی دسترس سے اب گن کر دو چار پارک ہی رہ گئے ہيں۔
بیس بلاکس پر مشتل اس علاقے میں کراچی کے سب سے پڑھے لکھے لوگ آباد ہیں لیکن حالات ایسے ہیں کہ گویا یہ کوئی کچی آبادی ہو۔ افسوس تو یہ ہے کہ یہی باشعور لوگ اپنے کاونسلر سے یہ پوچھنا بھی بھول گئے کہ ہمارے دئے ہوئے ٹیکس کہاں خرچ ہو رہے ہیں۔ انیس سو تراسی سے ستاسی تک مرحوم عبدالستار افغانی کے دور میں یہ علاقہ یوکلپٹس ٹاون بھی کہلاتا تھا جب ہر سڑک پر لمبے اونچے درخت،، ہواوں کے سنگ جھومتے جنت کا نظارہ پیش کرتے تھے۔ ترقی کے نام پر وہ سارے درخت بھی تیزی سے نگل لئے گئے۔
آج ان اجاڑ گليوں ميں گھومتے ايک حسرت مچلتی ہے کہ کچرے میں چھپے اس علاقے میں بھی کاش کہیں۔ درختوں کی چھاوں ہو،، کالی سپاٹ گليوں ميں ہم آئس کريم کے مزے ليں،، بچے اپنی سائيکليں دوڑائيں۔۔۔۔۔۔ اے کاش کبھی ایسا ہو ۔۔۔۔