زینب قتل کیس،ننھی پری کے والد کمرا عدالت میں بے بس ہو کر رو پڑے
لاہور : ننھی پری زینب کے قتل کیس کی سماعت سپریم کورٹ رجسٹری لاہور میں ہوئی، جہاں اینکر شاہد مسعود کو اپنے دعوؤں کا ثبوت پیش کرنے کیلئے رات 8 بجے تک کی مہلت دیتے ہوئے ان کے الزامات پر نئی جے آئی ٹی بھی بنادی گئی ہے، جب کہ زینب کے والد اور وکیل کے میڈیا سے گفتگو کرنے پر پابندی عائد کردی گئی۔ آج ہونے والی سماعت مکمل ہوگئی۔
چیف جسٹس نے شاہد مسعود کو جھاڑ پلا دی
چیف جسٹس نے عدالتی کارروائی میں بار بار مداخلت کرنے پر ڈاکٹر شاہد مسعود کو جھاڑ دیا اور ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ اونچی آواز میں ہر گز بات نہ کریں۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ میں نرمی سے بات کر رہا ہوں لیکن آپ کا رویہ درست نہیں ہے، میں سختی سے بھی بات کرسکتا ہوں، میں نہیں چاہتا کہ ماحول میں تناﺅ پیدا ہو‘۔ چیف جسٹس کے ریمارکس پر ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ ’ جو سزا دی جائے قبول ہے لیکن میں اپنے موقف پر اب بھی قائم ہوں کہ ملزم عمران کو قتل کردیا جائے گا، عدالت ملزم عمران کو اپنی تحویل میں لے‘۔ چیف جسٹس نے ڈاکٹر شاہد مسعود کی اس بات پر انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ’آپ اونچی آواز میں ہرگز بات نہ کریں‘۔

کیا قصور واقعہ کے ملزم اور زینب کے قاتل کو کچھ ہو جائیگا؟
زینب قتل کیس کی سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے ایک بار پھر اینکر شاہد مسعود کو روسٹرم پر بلالیا۔ شاہد مسعود نے کہا کہ میں نے خبر نہیں دی تھی، صرف معلومات دی تھیں کہ تحقیق کی جائے، ملزم عمران کی جان کو خطرہ ہے اسے اپنی تحویل میں رکھیں، سب نے میرا تماشہ بنایا ہے، اگر اس بچی کی ویڈیو نکل آئی تو کون ذمہ دار ہوگا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ملزم عمران کی زندگی کا تحفظ آئی جی کی ذمہ داری ہے۔ اسے مکمل قانونی تحفظ دیا جائے گا۔

زینب کے والد کمرہ عدالت میں رو پڑے
چیف جسٹس ثاقب نثار نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں زینب قتل کیس کی سماعت کے دوران زینب کے والد کو روسٹرم پر بلا لیااور ان سے پوچھا کہ آپ اتنے خاموش کیوں بیٹھے ہیں؟،آپ کے دل میں جو ہے وہ کہہ دیں ، ہم بحیثیت قوم زینب واقعہ پر شرمند ہ ہیں۔ میں آپ کو اپنا نمبر دے رہا ہوں،کوئی شکایت ہے تو ہم سے کریں۔
اس پر زینب کے والد کمرہ عدالت میں رو پڑے اور انہوں نے کہا کہ ملزم کو میری بیٹی پر رحم نہیں آیا اسے کڑی سزا ملنی چاہئے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم سب کو آپ سے ہمدردی ہے، زینب ہماری بھی بیٹی تھی،ہم آپکے دکھ میں برابر کے شریک ہیں،آپ جے آئی ٹی میں پیش ہوں۔

کیا اینکر پرسن کو توہین عدالت کی سزا ملے گی؟
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں زینب قتل کیس کی سماعت کے دوران ملزم عمران کے بینک اکاﺅنٹس کے حوالے سے ثبوت پیش نہ کرنے پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے اینکر پرسن شاہد مسعود پر سخت برہمی کا اظہار کیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر ڈاکٹر شاہدمسعودکی باتیں درست ہوئیں توانہیں سرٹیفیکیٹ دیاجائے گااور اگر ان کی باتیں غلط ہوں گی توان کیخلاف 3 طرح کی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ اینکرپرسن کو توہین عدالت کی سزا دی جائے، پاکستان پینل کوڈ کے تحت یا دہشتگردی کے قانون کے تحت لوگوں کو نفسیاتی اضطراب میں مبتلا کرنے پر اور اس سے زیادہ سخت بھی دے سکتے ہیں۔
دوران سماعت ایک صحافی جوش میں آگیا
سینئر تجزیہ کار نصرا للہ ملک نے کہا ہے کہ تمام صحافیوں کے اثاثے چیک کئے جانے چاہئیں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کے اثاثے بھی چیک ہونے چاہئیں اور اس کے ذرائع آمدنی کی تفصیل بھی سامنے آنی چاہیے۔ اس کی انکم ٹیکس ریٹرن بھی چیک ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود جہاں سے پیسے وصول کرتا رہا ہے اور اس کے چیک باﺅنس ہوتے رہے۔ اس کے خلاف مقدمات بنتے رہے۔ جہاں جہاں رشوت لی۔ پاکستان میں مفروغوں کی صحافت نہیں چل سکتی۔ سچی صحافت ہمیشہ آگے بڑھتی ہے۔ جو حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے۔ حکمرانوں کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان صاحب آپ سے گزارش ہے کہ نوٹس لیں، تحقیقات کریں، جس صحافی نے پیسے پکڑے ہیں اسے بھی اور حکومت کو بھی کٹھہرے میں کھڑا کریں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود جھوٹا ثابت ہو تو خدارا اس پر تاحیات پابندی لگادیں۔ ایسے گھس بیٹھیوں کا راستہ بند کردیجئے جو پاکستانی صحافی کیلئے کلنک کا ٹیکہ بن چکے ہیں۔
عدالتی کمرے میں سینیر صحافیوں کا اینکر پرسن کو سزا دینے کا مطالبہ
زینب قتل کیس کی سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں موجود سینیر صحافیوں نے جعلی خبر دینے پر متعلقہ اینکر پرسن کو سزا دینے اور پابندی لگانے کا مطالب کردیا۔
عدالت میں موجود سینیر صحافی عارف نظامی نے کہا کہ حیرانگی کی بات ہے کہ خبردے کر جے آئی ٹی کی بات ہو رہی ہے، خبر دینے سے پہلے چیک ہونی چاہیے۔ سینیر صحافی مجیب الرحمان نے کہا کہ غلط خبر پر سزا ہونی چاہیے، خبر تصدیق کے بعد دینی چاہیے۔ کمرہ عدالت میں سینیر صحافی اور رپورٹر کامران خان بھی موجود تھے، ان کا کہنا تھا کہ بعض اوقات ہمیں ایسی صحافت سے شرمندگی ہوتی ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ تصدیق کرتا ہوں کہ ویڈیو بنتی ہیں۔
کیا صحافی حامد میر ، اینکر پرسن شاہد مسود کے حق میں ؟؟
رپورٹر عارف حمید بھٹی نے کہا ٹاک شوز میں کسی کو تذلیل کا حق نہیں، نواز شریف نے جڑانوالہ میں عدلیہ کیخلاف بولا نوٹس نہیں لیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ درست ہے کہ ابھی نوٹس نہیں لیا، جب نوٹس لینا ہوگا کوئی طاقت ہمیں روک نہیں سکے گی۔
سینئر صحافی حامد میر نے انکشاف کیا ہے کہ شاہد مسعود کو مشورہ دیا ہے کہ آپ سے غلطی ہوگئی ہے یاثابت نہیں کرسکے تو معافی مانگ لیں لیکن تاحال وہ راضی نہیں ہوئے ، چیف جسٹس کو بھی کہاکہ تین کے علاوہ چوتھا آپشن بھی ہے کہ یہ غلطی مان لیں اور معافی مانگ لیں تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مناسب وقت کونسا ہوگا تو انہوں نے جواب دیا کہ آج کا وقت مناسب ہے ۔
ایک اور صحافی حامد میر نے کہا کہ شاہد مسعود جب ڈائریکٹر نیوز بنے تو یہ نہیں دیکھا ان کا تجربہ کیا ہے، بعد میں بہت سے چینلز نے انہیں رکھا، میں نے کوڈ آف کنڈکٹ کے لیے درخواست ڈالی تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ درخواست اب سماعت کے لیے مقرر کردی ہے۔ حامد میر نے کہا کہ آپ ڈاکٹر شاہد مسعود کو معافی کا موقع بھی دے دیں، تردید اور غلطی کی معافی سے کوئی چھوٹا نہیں رہتا، معافی کا موقع صرف آج ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے دیکھا شاہد مسعود کہہ رہے تھے کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔
چیف جسٹس کا نئی جے آئی ٹی بنانے کا اعلان
چیف جسٹس آف پاکستان نے متعلقہ اینکر پرسن کے مزید سنسنی دعوؤں پر نئی جے آئی ٹی بنانے کا اعلان کردیا ۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ اب وزیراعظم یا کوئی اور جوڈیشل کمیشن نہیں بنائیں گے، آئندہ کوئی جوڈیشل کمیشن نہیں بنے گا، پرانی جے آئی ٹی ختم کر کے اب نئی بنائیں گے، آئندہ جے آئی ٹی بشیر میمن کی سربراہی میں بنے گی، جے آئی ٹی کیلئے دیگر نام بعد میں دیں گے۔

عدالتی بینچ اینکر پرسن پر برہم،آڑے ہاتھوں لے لیا
لاہور سپریم کورٹ رجسٹری میں سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے ٹی وی اینکر پرسن شاہد مسعود پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ادھر ادھر کی باتیں نہ کریں، جو سوال پوچھا ہے اس کا جواب دیں۔ سماعت کے دوران اینکر پرسن نے کہا کہ ڈیپ ویب پر یہ کام ہو رہا ہے، نوٹس سے استفسار کرنے پر اینکر پرسن نے معصومانہ انداز میں کہا کہ "مجھے جے آئی ٹی کا نوٹس نہیں ملا،پرسوں شام کو نوٹس ملا"، اپنی بات پر پھر بھی قائم رہتے ہوئے اینکر پرسن نے کہا کہ بچوں کی ویڈیوز بنتی ہیں،300ویڈیوز بنی اور ریکٹ پکڑا گیا"۔
جس پر چیف جسٹس پوچھا کہ جو آپ نے کہا وہ ثابت کرنا ہے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ بينک اکاؤنٹس ملے نہیں، جس پر اینکر پرسن نے مزید سنسنی پھیلاتے ہوئے کہا کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ اس پر پھر عدالتی بینچ نے جعلی خبر پر اینکر پرسن کو آڑے ہاتھوں لے لیا اور کہا کہ جو آپ کہہ رہے ہیں وہ پراسیکیوشن کا کیس خراب کرسکتا ہے۔ ادھرادھرکی بات نہ کریں اپنی بات ثابت کریں۔ کیس کو پھر نئے رخ کی جانب موڑتے ہوئے شاہد مسعود نے کہا کہ پوسٹ مارٹم ڈاکٹر نہیں کرتے، یہ عمران مجرم نہیں، اس کے انگوٹھے چیک کرائیں 4 اور نکل آئیں گے۔
ای سی ایل میں نام ڈالنے کا اشارہ
عدالتی بینچ کی جانب سے سرزنش اور غصے پر شاہد مسعود نے عدالتی کمرے سے راہ فرار اختیار کرنی چاہیی اور کہا کہ آپ کہتے ہیں تو میں چلا جاتا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس آف پاکستان مزید غصے میں آگئے اور کہا کہ میں اب جانے نہیں دوں گا، میں آپ کا نام بھی ای سی ایل ڈال دوں گا۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے شاہد مسعود سے استفسار کیا کہ آپ اپنے پوائنٹ پر قائم کیوں نہیں رہے،رات 12بجے آپ کا پروگرام سنا اور صبح آپ کو بلایا،آپ نے ان باتوں کو تسلیم کیا،جو آپ نے بتایا آپ اسے ثابت نہ کر سکے۔
کون کون پہنچ گیا؟؟
تفصیلات کے مطابق زینب قتل کیس پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں خصوصی بینچ کر رہا ہے۔ سماعت میں ملزم عمران کے بینک اکاؤنٹس کا دعویٰ کرنے والے اینکرپرسن کے علاوہ سینیر صحافی اور اہم میڈیا شخصیات بھی عدالت طلب کیا گیا ہے۔ اس سے قبل اینکر پرسن تحقیقات کے لیے بنائی جے آئی ٹی کے سامنے جمعہ اور ہفتے کو پیش نہیں ہوئے تھے۔

جعلی خبر دینے والا اینکر پرسن بھی پہنچ گیا
آج ہونے والی سماعت میں میڈیا مالکن اور سینیر صحافیوں کو بھی طلب کیا گیا تھا، جو عدالتی حکم پر لاہور رجسٹری پہنچ گئے۔ صحافی تنظیموں کے ممبران کی بڑی تعداد بھی یہاں موجود ہیں۔ آئی جی پنجاب بھی سپریم کورٹ رجسٹری پہنچ گئے، جب کہ ملزم عمران کے جعلی بینک اکاؤنٹس کی جعلی خبر دینے والا اینکر پرسن بھی عدالت پہنچ گیا۔ شاہد مسعود نے ملزم عمران کے37بینک اکاؤنٹس ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ آج ہونے والی سماعت میں زینب کے والد سپریم کورٹ رجسٹری پہنچ گئے، جب کہ آئی جی پنجاب بھی عدالت میں موجود ہیں۔

چیف جسٹس نے کیس پر اہم بات کہہ ڈالی
سماعت کا آغاز کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ میڈیا کے لوگوں کے آنے کا شکریہ، اس موقع پر عدالتی کمرے میں موجود سرکاری وکیل نے کہا کہ شاہد مسعود کا اکاؤنٹس والا دعویٰ ثابت نہیں ہوا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب ہمارا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں، تفتیش جے آئی ٹی کا کام ہے۔

چالان 90روز کا ؟؟
چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کرتے ہوئے پوچھا کہ کیس میں کتنے دن میں چالان دیں گے؟ جس پر جی آئی ٹی سربراہ محمد ادریس کا کہنا تھا کہ ہم 90 دن میں کر سکتے ہیں۔

زینب کے والد اور وکیل پر پابندی عائد
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اتنے دن نہیں دے سکتے، اس موقع پر چیف جسٹس نے مقتولہ ننھی زینب کے والد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ امین انصاری!آپ یا آپ کے وکیل پریس کانفرنس نہیں کریں گے، ہم عدالت کے باہر میڈیا سے گفت گو پر بھی پابندی لگا رہے ہیں، جو معلوم ہے جے آئی ٹی کو بتائیں۔

جھوٹی خبر دینے والے اینکر کا ویڈیو کلپ عدالت میں چلا دیا گیا
اس موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان کے حکم پر کمرہ عدالت میں جعلی خبر دینے والے اینکر پرسن شاہد مسعود کو بلا کر ان کا ویڈیو کلپ بھی چلا دیا گیا۔

چیف جسٹس نے اینکر پرسن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ"آپ نے جو کہا ہے وہ آپ کو ثبات کرنا ہے"۔ "آپ جے آئی ٹی کے پاس بھی نہیں گئے"۔

شاہد مسعود عدالت میں اپنے دفاع میں کود پڑے
جس پر اینکر پرسن نے اپنا دفاع کرتے ہوئے منطق پیش کی کہ "میں پاکستان کے پہلے نیوز چینل کا ڈائریکٹر نیوز تھا"، "افخار چوہدری کے وقت خبر دی تھی کہ حالات خراب ہونے والے ہیں"۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لیکن ایسا تھا نہیں۔ شاہد مسعود نے کہا کہ سابق چیف جسٹس نے رات 12 بجے نوٹس لیا تھا۔ جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے دوبارہ یاد دلایا اور کہا کہ وہ خبر بھی آپ کی غلط نکلی تھی۔ کیس کی سماعت جاری ہے۔
کیس کا پس منظر
اس سے قبل گزشتہ روز سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ایک کیس کی سماعت کے دوران زینب قتل کیس کی بازگشت بھی سنائی دی، چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ زینب قتل کیس میں اینکرپرسن کے بیان پرنوٹس لیا تھا، ہم میڈیا کی مدد چاہتے ہیں اورسچ تک پہنچنا چاہتے ہیں۔
انہوں نےآج لاہور رجسٹری میں کیس کی سماعت میں اے پی این ایس ، پی بی اے ، میڈیا مالکان اور سینئر صحافیوں کو بھی طلب کیا گیا ہے۔ دوسری جانب ملزم عمران کے بینک اکاؤنٹس کا دعویٰ کرنے والے اینکر پرسن گزشتہ روز بھی جے آئی ٹی کے اجلاس میں پیش نہ ہوئے۔
ادھر پنجاب حکومت کی طرف سے زینب قتل کیس کے علاوہ قصور میں زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی 7دیگر بچیوں کے کیسز کی ازسر نو تحقیقات جے آئی ٹی کے سپرد کردی گئی۔
جے آئی ٹی نے زیادتی کے بعد قتل کی گئی ایمان فاطمہ کا کیس دوبارہ کھولتے ہوئے،مقدمے کے ملزم مدثر کو مبینہ مقابلے میں ہلاک کرنے والے 6 اہلکاروں سب انسپکٹر محمد علی، اےایس آئی تنویر، اے ایس آئی شریف، کانسٹیبل محمد عامر، عابدحسین اور خالد کو طلب کرلیا۔ سماء