کچھ نہ کہو! چُپ رہو

تحریر: حمیرہ اشرف

آفس سے نکلتے ہی بھاگتی دوڑتی وین تک پہنچی تو وین میں بیٹھتے ساتھ ہی صائمہ نے بریکنگ نیوز دی، کھارا در میں دھماکہ ہوا ہے۔ میں سُن سی رہ گئی، اعصاب یک دم ہی تن گئے، کھارا در تو اسٹیٹ بینک، یعنی ہمارے آفس کی عمارت کی پچھلی جانب ہی تو ہے۔ ارے یار کوئی ایسا دھماکہ تھوڑی تھا، بس کوئی ہینڈ گرنیڈ ہی تھا، دو تین لوگ ہی مرے ہیں۔ کوئی ایسی بڑی بات نہیں! یہ بینش تھی جس نے اپنے طور پر سب کو تسلی دی۔ یہ بانو  کی تسلی کا اثر تھا یا ایسی خبروں کا معمول کا حصہ ہونا، سب ہی کے تنے اعصاب پُرسکون ہوگئے۔ اللہ رحم کرے کی بڑبڑاہٹ نما دعا کے ساتھ موضوع بدل گیا۔ کچھ دیر بعد بڑی برانڈز پر کپڑوں کی سیل، مارننگ شوز اور چند بیوٹی ٹپس اگلے موضوعات تھے اور بات ختم۔

ہر خبر کی ایک زندگی ہوتی ہے، لاکھ سر چڑھ کر بولے لیکن جلد پرانی ہو جاتی ہے، اتر جاتی ہے ذہن سے، یا عادت کا حصہ بن جاتی ہے۔ یہ خبر کی دنیا ہے میرے بھائی، آج ہم سب خبر ہیں، مظلوم زینب بھی اور اس جیسی کئی اور بچیاں بھی، قصور ویڈیو اسکینڈل والے بھی اور دکھ جھیلتی موت کے دامن میں عافیت گزیں قندیل بھی، دریدہ بدن مشال خان بھی، مقتول انتطار اور سرفراز بھی، سانحہ آرمی پبلک اسکول والے بھی تو بلدیہ ٹاؤن فیکٹری والے بھی، امجد صابری بھی اور جنید جمشید بھی، جعلی پولیس مقابلوں اور جعلی دھرنوں کا شکار بھی۔۔۔ غرض یہ کہ خبروں کی طویل فہرست ہے۔ ہم سب کا عرصہ حیات ایک خبر سے دوسری خبر پر محیط ہے، کچھ خبر نہیں کہ آج جو ہم چلتے پھرتے ہیں کل کسی خبر میں ساکت پڑے دیدہ عبرت نگاہ ہوں ۔۔۔ ہمارے ہاں بڑی بات کیا ہوتی ہے؟

بڑی بات ۔ ۔ ۔ جب ہمارے اپنے گھر کوئی اندوہناک واقعہ رونما ہو یا ہمارے اپنوں کے ساتھ ظلم و جبر یا زیادتی کا معاملہ پیش آئے۔ ہاں ہمارے لیے یہی بڑی بات ہے۔ یہ ہمارا قومی مزاج ہے یا انسانی فطرت کہ ہم بہت جلد تلخ یادوں کو نہ صرف فراموش کرتے ہیں بلکہ ایک تواتر سے وقوع پذیر ہونے والے ناپسندیدہ و تکلیف دہ واقعات کو معمول کا حصہ سمجھ لیتے ہیں، جو پھر ہماری سوچ کے تاروں کو نہیں جھنجھناتے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں اس لیے وہ بھی مٹی ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ سب مل کر کوشش کرتے ہیں کہ "وقوعے" کے بعد جیسے تیسے، وعدے وعید، طفل تسلیوں کے ساتھ  کچھ دن گزار لیے جائیں تاکہ معاملہ ٹھنڈا ہوجائے۔ بعض اوقات کسی حادثے پر اٹھنے والے شور کو کسی دوسرے حادثے کی مدد سے خاموش کروایا جاتا ہے۔ ختمِ نبوت کی شق کے شور میں راتوں رات ناہل وزیر پارٹی صدر بن جاتے ہیں، کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔

لوڈشیڈنگ اپنے آغاز پر تکلیف دہ تھی پھر عادت بنتی چلی گئی، اب اگر کسی دن معمول کے اوقات میں لائٹ نہ جائے تو خوشی کی بجائے تشویش ہونے لگتی ہے کہ آج لائٹ مقررہ وقت پر کیوں نہیں گئی (کیونکہ اکثر اس بات کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اب لائیٹ ساری رات کے لیے بند کی جائے گی)۔ ٹارگٹ کلنگ، یا دہشت گردی ۔۔۔ یاد ہے کچھ عرصہ پہلے جب ایسا کوئی واقعہ ہوتا تو  ہر طرف خوف و ہراس کی کیفیت پھیل جاتی، دو چار دن دکانیں بند رہتیں، گھروں میں موجود لوگ سہم جاتے اور لوگ اس مقام کی طرف جاتے ہوئے ڈرتے، مہینوں وہ جگہ ویران پڑی رہتی، بچے دن میں بھی اس مقام سے گزرتے ڈرتے۔ بلکہ بچے ایک دوسرے کی بہادری پر شرط باندھتے کہ فلاں گلی سے گزر کر دکھاؤ تو مانیں گے تمھاری بہادری، اور دعویٰ کرنے والے کی بہادری ہوا ہوجاتی۔ اب تو ہر سڑک، ہر گلی خون سے سُرخ ہے، ہر شاہراہ پر کسی نہ کسی قتل کی فراموش داستان ہے، کیونکہ یہ معمول ہے۔

بم دھماکے بھی ایسا ہی ایک معمول ہیں۔ چھوٹا موٹا دھماکہ، راکٹ لانچر تو کوئی بات ہی نہیں۔ دو چار لوگ مر گئے کوئی مسئلہ نہیں۔ مرنے والے غریب تھے، چلو پھر تو اور آسانی۔ مارنے والا کوئی ایم پی اے ایم این اے تھا، چلو کوئی نہیں میڈیا کے شور مچانے تک کی بات ہے کون سا کسی نے اپنے گھروں سے باہر آنا ہے انصاف دلوانے۔

بچوں کا ریپ بھی تو خاصی حد تک معمول کا حصہ بن چکا تھا۔ آئے دن خبر آتی، سب افسوس کا اظہار کرتے اور بات نمٹ جاتی۔ اندرونِ سندھ، خیبر پختونخواہ یا بلوچستان کا معاملہ ہوتا، کوئی بڑا ملوث ہوتا، تو ایف آئی آر تک کٹوانے کی زحمت نہ ہوتی۔ تلور کے شکار کے ساتھ لڑکیوں کی آہیں سسکیاں کسی کو سنائی دیتیں تو بھی اربوں کی سرسراہٹ سب پر حاوی ہوجاتی۔ یہی وجہ تھی کہ زینب کے معاملے پر سوشل میڈیا میں جاگ اٹھنے والے ہنگامے کی سرکوبی بھی ضروری بنی، احتجاج کے لیے آنے والے لوگوں پر فائر کھول دیا گیا، یعنی گولی کی زبان میں پیغام کہ سنو دیکھو سب، لیکن چپ رہو، ورنہ جان سے جاؤ گے۔ وہی میڈیا کا ہنگامہ، شور شرابا، سیاست چمکا لی گئی اور اب گرد بیٹھنا شروع ہوگئی۔ ہاں خفیہ پیغام سب کو پہنچ گیا۔۔۔ کچھ نہ کہو! چُپ رہو۔

SAMAA Blog

zainab murder

Tabool ads will show in this div