خاکے سے گرفتاری تک:کیا زینب کا اصلی قاتل پکڑا گیا؟
قصور میں زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی سات سالہ معصوم بچی زینب کا ملزم بالاخر پکڑا گیا۔ ننھی زینب کو اس وقت قتل کیا گیا جب اس کے والدین عمرہ کی ادائیگی کے لیے گئے ہوئے تھے اور اپنے چچا کے ساتھ رہائش پزیر تھی۔ پولیس کا دعویٰ ایک طرف لیکن وزیر قانون پنجاب کو بھی ملزم کی گرفتاری کا علم نہیں۔
قصور میں زینب کے ساتھ زیادتی پہلا واقعہ نہیں، اس سے قبل بھی بارہ بچیاں ہوس کا نشانہ بنائی جا چکی ہیں۔پانچ روز تک زینب غائب رہی لیکن پولیس کے کان پرجوں تک نہ رینگی۔ بالاخرنو جنوری کو کچرے کے ڈھیر میں سے مسلی ہوئی کلی کی لاش ملنے کے بعد سوشل میڈیا پر سخت ردعمل سامنے آیا تو پولیس کی دوڑیں لگ گئیں۔ نوجنوری سے آج تک مختلف دعوے سامنے آتے رہے۔
سپریم کورٹ کی ڈیڈ لائن
پولیس کی جانب سے ملزم کے دو مختلف خاکے اورسی سی ٹی فوٹیجز جاری کی گئیں مگر نتیجہ صفر۔ اس دوران چیف جسٹس نے از خود نوٹس لیا۔ اتوار 21 جنوری کولاہور رجسٹری میں ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے 72 گھنٹوں میں زینب کے قاتل کو گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ جو کرنا ہے 72 گھنٹوں میں کرلیں۔
جے آئی ٹی رپورٹ
سپریم کورٹ لاہوررجسٹری میں پیش کی جانے والی جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق 800 سے زائد افراد کا ڈی این کیا گیا۔جے آئی ٹی سربراہ محمد ادریس نے بتایا جون 2015 سے یہ آٹھواں واقعہ ہے۔ سانحے کے بعد کچھ لوگ اس علاقے میں نہیں ۔ جن کی لسٹ موجود ہے انہی میں سے مجرم ملے گا۔ 800 افراد کا ڈی این اے کر چکے ہیں۔عدالت نے ریمارکس دیےکہ 2015 میں پولیس الرٹ ہوجاتی تو یہ واقعہ پیش نہ آتا۔
پولیس کا دعویٰ
سپریم کورٹ کی جانب سے ملزم کی گرفتاری کے لیے دی جانے والی مہلت آج ختم ہو رہی تھی مگراس سے قبل ہی پولیس نے دعویٰ کیا کہ زینب کا قاتل گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ترجمان قصور پولیس کے مطابق عمران والد ارشد نامی یہ ملزم زینب کا محلے دار ہے۔ ملزم کے نادرا شناختی کارڈ میں اس کی تاریخ پیدائش 18 اپریل 1994 درج ہے اور وہ کلین شیو ہے جبکہ پولیس کی جانب سے جاری کیے جانے والے خاکے اور سی سی ٹی وی فوٹیجز میں ملزم کی داڑھی تھی جو کہ ممکنہ طور پرگرفتاری سے بچنے اور شناخت چھپانے کیلئے اس نے منڈوالی۔
ملزم کی گرفتاری پرزینب کے والد کا موقف
ملزم کی گرفتاری سے متعلق خبریں سامنے آنے کے بعد سماء کی جانب سے زینب کے والد سے رابطے پر انہوں نے کہا کہ پولیس کی جانب سے ہمیں زینب کے قاتل کی گرفتاری کی کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔ ملزم کو بہت اچھے طریقے سے نہیں جانتا۔ وہ ہمارے پیچھے والی گلی میں رہتا ہے
انہوں نے مزید کہا کہ تصویر دیکھ کرلگتا ہے کہ ملزم کو پہلے دیکھ رکھا ہے۔ اس دوران ملزم کو گرفتار بھی کیا گیا لیکن شبہ میں پکڑے جانے کے بعد پوچھ گچھ کر کے اسے چھوڑ دیا گیا تھا۔ زینب کے ماموں کو شک ہوا تھا کہ ملزم یہی ہے۔
وزیرقانون پنجاب نے کیا کہا؟
اس کیس کے دوران وزیرقانون پنجاب رانا ثناء اللہ کے بیان پر بھی خاصی لے دے ہوئی جنہوں نے ابتدائی بیان میں معصوم بچی کے ساتھ اس ہولناک واقعے کا ذمہ دار بڑی حد تک ماں بات کو ہی ٹھہرایا جو بچی کو چھوڑ کر عمرہ کی ادائیگی کے لیے گئے تھے۔ یہی نہیں سوشل میڈیا پر شدید ردعمل سامنے آنے کو بھی شرپسند عناصر کا ملوث ہونا قرار دیا گیا۔
آج پولیس نے تو ملزم کی گرفتاری کا دعویٰ کیا لیکن رانا ثناء اللہ کو اس حوالے سے حتمی اطلاع شاید نہیں دی گئی۔ سماء سے گفتگو میں صوبائی وزیر قانون رانا ثناء نے محتاط انداز اپناتے ہوئے کہا کہ یہ عام خبر نہیں جس پر اندازے کے مطابق بات کی جائے۔ فارنزک لیبارٹری کی تفصیلی رپورٹ جیسے ہی مکمل ہوگی تو شیئر کریں گے۔ ملزم کے اہلخانہ کو حراست میں لینے کی اطلاع نہیں۔
کیا اصلی قاتل پکڑا گیا؟
سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن نے کام تو کردکھایا لیکن یہ تعین ہونا باقی ہے کہ کیا واقعی عمران نامی شخص ہی زینب کا قاتل ہے؟ کیونکہ اس سے قبل بھی پولیس نے ملزم کی گرفتاری کے متعدد دعوے کیے لیکن کسی مشتبہ شخص کا ڈی این اے ٹیسٹ میچ نہیں کیا۔ فارنزک لیبارٹری کی حتمی رپورٹ کے بعد ہی اصل ملزم کا تعین ہو سکے گا۔سماء