قصور کی زینب کا قاتل کون؟
تحریر: فرخ عباس
قصور کی زینب کے قتل کو ایک ہفتہ سے اوپر گزر چکا ہے، زینب کے اغوا کو دو ہفتے ہو چکے ہیں، زینب کا قاتل اب بھی آزاد ہے، حکومت کے دعوے ابھی بھی جاری ہیں کہ جن میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ٹھیک اسی طرح اضافہ ہوتا جا رہا ہے جیسے کسی بغیر دفنائی لاش کے تعفن میں دن گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا ہے۔
قصور میں کچرے کے ڈھیر سے ملنے والے بے جان جسم گو کہ زینب کا تھا، لیکن وہ لاش زینب کی نہیں ہماری نام نہاد غیرت اور حمیت کی تھی، وہ لاش ہمارے معاشرتی کردار کی تھی، وہ لاش خادم اعلی کی گڈ گورننس کی تھی، وہ لاش زینب کی نہیں ہمارے قانون کی تھی، اسی قانون کی جس کا وزیر قانون رانا ثنااللہ ہے۔
زینب کی لاش ملتے اور میڈیا پر خبر آتے ہی پور ی قوم غم و غصے سے بھر گئی۔ پہلے پہل اس غصے کا رخ حکومت کی نا اہلی کی جانب تھا کیونکہ یہ قصور میں اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا، بقول معطل کردہ ڈی پی او قصور زینب سے پہلے یہی کچھ گیارہ اور معصوم بچیوں کے ساتھ ہو چکا ہے اور یہ سب کچھ ایک سال سے بھی کم عرصے میں ہوا، اس کے علاوہ قصور میں ہی تین سال قبل سامنے آنے والا چائلڈ ابیوز سکینڈل بھی زیادہ پرانی بات نہیں کہ جس میں لگ بھگ تین سو سے زیادہ بچوں کے ساتھ نا صر ف جنسی زیادتی کی گئی بلکہ ان کی وڈیوز بھی بنائی گئی جو کہ کچھ اطلاعات کے مطابق بیرون ملک فروخت بھی کی گئیں، یہ واقعہ بھی ایک دم سامنے آیا کچھ دن شور ہوا اور پھر حکومتی شخصیات کے دباو کے بدولت نا صرف دب گیا بلکہ اس قوم کے کمزرو حافظے سے اتر گیا۔
قصور سے آدھا گھنٹہ دور لاہور میں بیٹھی صوبائی حکومت کا رویہ تب بھی ایسا تھا جیسا اب کی بار رہا، پہلے تو اس واقعہ کے ہونے کا انکار، پھر پولیس کی نا اہلی یا ملی بھگت کو چھپانے کی پوری کوشش، پھر احتجاج کرنے والوں پر فائرنگ اور پھر اس فائرنگ سے انکار، بات یہاں نہیں رکی، کبھی حکومت کے حامیو ں کی جانب سے واقعہ کی زمہ داری زینب کے والدین پر ڈالنے کو کوشش اور پھر ڈاکٹر قادری کی جانب سے زینب کا جنازہ پڑھانے پر اعتراض، یہ سب کیا گیا، صرف اس وجہ سے کہ حکومت کی نا اہلی پر پردہ پڑا رہے۔ حد تو یہ کہ ان واقعات سے انکاری اور ان کا مذاق تک اڑانے والے شخص رانا ثنا اللہ کو ہی اس تحقیقاتی کمیٹی کا سربراہ بنا دیا گیا، یاد رہے یہ وہی شخص ہیں جو 2015 کے سانحہ قصور کو زمین کا تنازعہ قرار دے چکے ہیں۔
ڈاکٹر قادری پر اعتراض یہ کہ وہ جنازہ پڑھا کے سیاست چمکا رہے ہیں جبکہ یہ بات اب سب جانتے ہیں کہ زینب کے والد ڈاکٹر قادری کے ادارے منہاج القران کے سرگرم رکن ہیں اور ڈاکٹر قادری نے جنازہ زینب کے والدین کی مرضی سے ہی پڑھایا ۔
دوسرا ہتھکنڈا یہ اپنا گیا یہ بات ایک منصوبے کے تحت پھیلا دی گئی کے زینب کا قاتل اس کا کوئی رشتہ دار تھا، یہاں اس بات کا امکان خارج کرنا مقصور نہیں لیکن حکومتی رپورٹ کے مطابق ہی زینب سے پہلے اس درندگی کا شکار ہونے والی چھ بچیوں کا قاتل بھی یہی شخص تھا تو کیا یہ قاتل پہلے قتل ہونے والی تمام بچیوں کا بھی رشتہ دار تھا؟ اس تمام صورتحال میں تو جو چیز سب سے زیادہ قابل مذمت ہے وہ حکومت کی نا اہلی ہے کیونکہ وہ اتنی معلومات اور اتنا وقت ہوجانے کے باوجود اس قاتل کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ایک اور طبقہ بھی موجود ہے جو سب چھوڑ کر اس بات کے پیچھے پڑ گیا کہ کس طرح باقی صوبوں میں ہونے والے اس قسم کے واقعات کو استعمال کر کے قصور میں ہونے والے پے درپے سانحات پر پردہ ڈالا جائے۔ یہ سب بھی انصاف کے نام پر ہی کیا جا رہا تھا گو کہ مقصد نون کی حکومت کا ڈھکا چھپا دفاع ہی تھا۔
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ زینب کا قاتل کون ہے؟
زینب کا قاتل صرف وہ نہیں جس نے اسے اغوا کر کے اس کا قتل کیا بلکہ ہر وہ شخص زینب کے قتل میں شریک ہے جو کسی بھی طرح سے جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے افراد پر ہونے والے ظلم کا زمہ دار خود متاثرین کا سمجھتا ہے، ہر وہ شخص جو دوسری ممالک میں ہونے والے ایسے واقعات کو استعمال کر کے اپنے ملک میں کسی بھی وجہ سے ان واقعات کی شدت کو کم بتانے کی کوشش کرتا ہے، ہر وہ شخص زینب کا قاتل ہے جو کبھی لباس اور کبھی والدین اور کبھی کسی محرم کا ساتھ نا ہونا یا کسی اور عوامل کی وجہ سے اس ظلم کی زمہ داری خود متاثرہ فریق کے سر ڈالتا ہے۔ یاد رہے گزشتہ چند سال کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہونے والے بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات میں بچیوں کی نسبت بچوں سے ہونے والے واقعات کی تعداد کچھ زیادہ ہی ہے، اب بچے کو نا تو کسی محرم کی ضرورت ہے اور نا اس کے لباس کو زمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ جس وقت زینب کو قتل کیا گیا ٹھیک اسی وقت فیصل آباد میں ایک سولہ سال کے بچے کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو اس سے پہلے سینکڑوں بچوں کے ساتھ ہو چکا تھا۔
اس قتل اور اس جیسے واقعات کی ذمہ دار وہ سوچ ہے جو بجائے قاتل اور اس کے مائینڈ سیٹ کو الزام دینے کے متاثرین پر ہی الزام دھر دیتی ہے ۔