‘‘پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر عارف ’’شہیدِ وفا

تحریر: احسن وارثی

قصور کی معصوم زینب کے ساتھ ہونے والے ظلم پر جب ہر طبقے کی جانب سے آواز اُٹھتے دیکھی تو اُمید تھی کہ اسی طرح ہر ظلم کےخلاف ایسے ہی آواز اُٹھائی جائے گی۔ لیکن میری غلط فہمی کے یہاں اب ہر ظلم کےخلاف قوم کھڑی ہوگی اُس وقت دور ہوگئی جب زینب کے قتل کے چند روز بعد پروفیسر صاحب کے قتل کی خبر ملی اور سوائے کراچی کے کسی شہر صوبے نے اس ظلم کو محسوس نہیں کیا۔

جب 14 جنوری کو کراچی میں پروفیسر حسن ظفر عارف صاحب کے حوالے سے اطلاع ملی کہ ریڑھی گوٹھ ابراہیم حیدری سے پروفیسر صاحب کی لاش ملی ہے تو یہ سن کر تو جیسے پیروں سے زمین ہی کھسک گئی۔ ایک ممتاز فلاسفر، دانشور ،شفیق استاد ، سینکڑوں طالبِعلموں کو علم کے زیور سے آراستہ کرنے والا انسان آج ہم میں نہیں رہا۔ پروفیسر صاحب کے قتل کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

پروفیسر صاحب کی تشدد زدہ لاش کی تصاویر/ وڈیو جب سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر نظر سے گزری تو آنکھیں نم ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ پروفیسر صاحب کی تصاویر اور وڈیو دیکھنے کے باوجود پروفیسر صاحب کی موت کو طبعی موت قراردیتا سننا کافی تکلیف دہ تھا۔ دنیا پروفیسر حسن ظفر عارف جیسے استاد کو اعزازات سے نوازتی ہے اور ہمارے یہاں اس کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔

پروفیسرصاحب نے نصرت بھٹو ، مرتضیٰ بھٹو سمیت کئی سیاسی رہنماوں کے برے وقتوں میں انکا ساتھ دیا ۔ دو سال قبل مئی 2016 میں ایسے وقت میں متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت اختیار کی جب وہ ایک مشکل ترین دور سے گزررہی تھی۔ اور 22 اگست کے بعد جب کئی کئی سالوں کی رفاقت والوں نے بانی متحدہ کا ساتھ چھوڑدیا تو ایسے وقت میں پروفیسر صاحب منظرعام پر آئے بانی متحدہ کا دفاع کیا اور اسی پاداش میں انھوں نے 6 ماہ قید میں گزارے۔ قید سے رہائی کے باوجود ہمت نہ ہاری اور اپنا سفر جاری رکھا۔ پروفیسر صاحب ابھی بانی متحدہ کی جماعت کو مزید بہتر انداز میں منظم کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھے کہ انھیں قتل کردیاگیا۔

پروفیسر صاحب نے ہمیشہ جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا اور ڈکٹیٹرز کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے۔ پروفیسر صاحب کی خدمات پر بات کرنے بیٹھیں تو شاید ایک تحریر میں سمیٹنا ممکن نہیں۔ پروفیسر صاحب کی شہادت پر بانی متحدہ کی جانب سے انھیں "شہیدِوفا" کا لقب دیا گیاہے۔

پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیرِداخلہ سندھ کو ہدایت کی کہ پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر عارف صاحب کے قتل کی تحقیقات کرائی جائے۔ کراچی میں انسانی حقوق کی تنظیم کے اراکین اور پروفیسر صاحب کے شاگردوں نے کراچی پریس کلب پر پروفیسر صاحب کے قتل کےخلاف احتجاجی مظاہرہ کیا اور قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

ڈاکٹر صاحب نے کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز اور پھر ہارورڈ یونیورسٹی سے فلاسفی میں پی ایچ ڈی کیا۔ ڈاکٹر صاحب کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلاسفی کے ریٹائرڈ پروفیسر تھے۔ ڈاکٹر صاحب ملک میں حقیقی جمہوریت کے خواہش مند تھے۔ جس کے لیے انھوں نے عملی جدوجہد بھی کی۔

جس شخص نے پوری زندگی جمہوریت کا ساتھ دیا، انسانی حقوق کی بات کی بدقسمتی سے وہی اپنے آخری ایام میں بنیادی انسانی حقوق سے محروم رہا۔ کسی جمہوری جماعت کے کسی نمائندے کی جانب سے پروفیسر صاحب کی نمازِ جنازہ میں شرکت تو دور انکے لواحقین سے تعزیت کرنے تک کی جرات نہ کرنا افسوسناک ہے۔

پروفیسر صاحب کے بہیمانہ قتل پر پورے ملک کی عوام / انسانی حقوق کی تنظیمیں / سول سوسائٹی کی مجرمانہ خاموشی معاشرے کی منافقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کراچی میں ایک دانشور ،فلسفی ، استاد کو قتل کردیا جاتا ہے جوکہ ایک قومی سانحہ تھا۔اس پر تمام تر اختلافات بھلاکر تمام حلقوں کی جانب سے اسکی سخت مذمت کی جانی چاہیے تھی ۔ کیونکہ پروفیسر صاحب نے تو ہمیشہ ایک استاد کی حیثیت سے اپنے شاگردوں کو بلارنگ و نسل اوربلاامتیاز تعلیم دی تھی۔ لیکن افسوس اُنکی خدمات کا اعتراف کرنا تو دور ُانکی موت کی خبر تک کو میڈیا پر ایک جائز وقت سے بھی محروم رکھاگیا۔

ہمیں پروفیسر حسن ظفر عارف جیسے نظریاتی اور اصول پسند اساتذہ کی قدر کرنا چاہیے۔انکی خدمات کا اعتراف کرنا چاہیے جنکے وہ حق دار ہوتے ہیں۔ کیونکہ ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ پروفیسر صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔ آمین

STUDENTS

mqm London

hasan zafar arif

zainab murder

Tabool ads will show in this div