خیبر پختونخوا میں بچوں کا تحفظ
۔۔۔۔۔** تحریر : محمد فہیم **۔۔۔۔۔
مردان کے علاقے گوجر گڑھی سے 13 جنوری کو لاپتہ ہونے والی 4 سالہ اسماء کی لاش گھر کے قریب کھیتوں سے اتوار کی شام کو پولیس کو ملی، اسماء کو مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا، ٹھیک 9 روز قبل قصور کی 7 سالہ زینب بھی ایسے ہی اچانک غائب ہوگئی تھی اور بعد میں اس کی سڑک کنارے لاش کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی، یہ کوئی پہلا یا آخری واقعہ نہیں، خیبر سے کراچی تک پاکستان بھر کے بچے اور ان کے والدین آج جس خوف اور دہشت میں زندگی گزار رہے ہیں، شاید پہلے کبھی نہ تھے۔
ہر صوبہ اب خود مختار ہے اور اپنے صوبے کے عوام کیلئے اقدامات اٹھانے کا اس کے پاس مکمل اختیار ہے، پنجاب حکومت نے زینب کے قتل کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ اپنے صوبے کے بچوں کے تحفظ کیلئے قانون تیار کریں گے، بلاول بھٹو زرداری نے بھی میدان میں کودتے ہوئے کہا کہ سندھ کے ہر ضلع میں چائلڈ پروٹیکشن یونٹس قائم کئے گئے ہیں تاہم اس تمام بحث میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والی پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف خاموش رہی ہے۔

دراصل اسماء کے قتل سے 14 روز قبل ہی خیبر پختونخوا میں قائم تمام چائلڈ پروٹیکشن یونٹس بند کردیئے گئے تھے، بظاہر تو یہ ایک بہت بڑا المیہ نظر آنے لگا تاہم خیبر پختونخوا حکومت کیلئے شاید ان سینٹرز کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
خیبرپختونخوا میں بچوں کے تحفظ کیلئے 2010ء میں قانون پاس کیا گیا جس کے تحت 2011ء میں چائلڈ پروٹیکشن کمیشن کا قیام عمل میں آیا، کمیشن نے ابتدائی طور پر صوبے کے 5 اضلاع میں چائلڈ پروٹیکشن یونٹ قائم کئے، جنہیں بعد میں 12 اضلاع تک توسیع دے دی گئی، ان اضلاع میں پشاور، مردان، صوابی، چارسدہ، بونیر، سوات، کوہاٹ، ایبٹ آباد، لوئر دیر، چترال، بنوں اور بٹگرام شامل ہیں۔ صوبائی حکومت کے مطابق چائلڈ پروٹیکشن یونٹ کا بنیادی مقصد بچوں پر تشدد، چائلڈ لیبر، ہراساں کرنے اور دیگر حقوق سے متعلق شکایات کا اندراج اور اس پر کارروائی کرنا تھا۔

ان یونٹس کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مذکورہ 12 اضلاع میں ایک ہزار 52 چائلڈ پروٹیکشن کمیٹیاں قائم کی گئیں تھیں، جنہوں نے دیگر اداروں کی مدد سے بچوں پر تشدد، ہراساں اور ان کے حقوق کے متعلق 30 ہزار سے زائد کیسز کا اندراج کرتے ہوئے کارروائیاں کیں۔ ان یونٹس کا قیام اور سالانہ اخراجات اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے تحفظ اطفال (یونیسف) کے تعاون سے کئے جارہے تھے، حکام کے مطابق سالانہ 3 کروڑ روپے ان تمام 12 اضلاع کے یونٹس پر خرچ ہوتے تھے جن میں ملازمین کی تنخواہیں، آمد و رفت، یوٹیلٹی بلز اور دیگر اخراجات شامل تھے۔

یونیسف کے مالی تعاون سے قائم ان یونٹس کے متعلق متعدد بار صوبائی حکومت کو بتایا گیا کہ وہ بجٹ میں ان کیلئے رقم مختص کرے اور مالی طور پر ان کا انتظام خود سنبھالے تاہم صوبائی حکومت کی جانب سے معاملہ فائلوں سے آگے نہ بڑھ سکا اور اب یونیسیف کا آخری معاہدہ 31 دسمبر 2017ء کو اختتام پذیر ہوگیا ہے، جس کے بعد یہ 12 یونٹس غیر فعال ہوگئے۔

خیبرپختونخوا میں 25 لاکھ سے زائد ایسے بچے آج بھی موجود ہیں جن کیلئے کوئی آواز اٹھانے والا نہیں، ان بچوں میں بھیک مانگنے والے، ورکشاپس، ہوٹلوں اور دکانوں پر مزدوری کرنیوالے اور یتیم بچے بھی شامل ہیں۔ صوبے کے 27 اضلاع تک وسعت دینے کی ضرورت کو پس پشت ڈالتے ہوئے صرف 12 اضلاع میں قائم یہ یونٹس بھی بند کردیئے گئے، اسماء قتل واقعے کے بعد خیبرپختونخوا کے والدین بھی اپنے بچوں کیلئے مزید فکرمند ہوگئے ہیں۔

دو سال سے اپنے سربراہ سے محروم خیبرپختونخوا کا چائلڈ پروٹیکشن کمیشن خود بھی بے سر و پا ہے اور کمزوری کی حد یہاں تک ہے کہ صوبائی حکومت آج تک انہیں یہ سینٹرز دوبارہ بحال کرنے کیلئے سالانہ 3 کروڑ روپے دینے کو تیار نہیں۔ کمیشن ذرائع کے مطابق مذکورہ سینٹرز کھولنے کیلئے صوبائی حکومت کا جواب مثبت نہیں ہے تو انہیں صوبہ بھر تک توسیع دینے کا ارادہ کیسے عملی کیا جاسکے گا۔