اسکمنگ

People hold flags of China and Pakistan during the Olympic torch ceremony in Islamabad April 16, 2008. Thousands of Pakistani police and paramilitary soldiers were deployed in Islamabad on Wednesday for the Olympic torch relay, as Australia braced for clashes between pro-Tibet supporters and Chinese students.     REUTERS/Mian Khursheed   (PAKISTAN)
People hold flags of China and Pakistan during the Olympic torch ceremony in Islamabad April 16, 2008. Thousands of Pakistani police and paramilitary soldiers were deployed in Islamabad on Wednesday for the Olympic torch relay, as Australia braced for clashes between pro-Tibet supporters and Chinese students. REUTERS/Mian Khursheed (PAKISTAN)

۔۔۔۔۔**  تحریر : توقیر چغتائی **۔۔۔۔۔

انگریزی میں ذرا سے فرق کے ساتھ ”میڈ“ بنانے کو بھی کہتے ہیں اور پاگل شخص کو بھی، لیکن ہم نے اس لفظ کو جب بھی دیکھا چین کے ساتھ لکھا ہوا دیکھا، جس کی وجہ سے اس کا ترجمہ ”چین میں پاگل“ کرتے رہے، ہم تو کبھی چین اس لئے نہ جا سکے کہ چینی زبان سے نا آشنا تھے اور کوئی چینی ہمارے ہاں اس لئے نہ آیا کہ وہ پنجابی نہیں بول سکتا تھا، مگر یہ سوچ کر تسلی ہوتی ہے کہ جب وہ اردو میں ”میں بھی پاکستان ہوں تو بھی پاکستان ہے۔“ گا سکتے ہیں تو کسی دن پنجابی تو کیا پشتو، بلوچی اور سندھی بھی سیکھ ہی لیں گے۔

یہ بھی سنا ہے کہ چینی ہمارے ہاں ٹھہرنے کا کچھ لمبا ہی پروگرام بنا چکے ہیں، جسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں چائے میں ڈالنے کیلئے گُڑ اور چینی ملے یا نہ ملے سڑکوں اور گلیوں میں چینی ہی چینی گھوم رہے ہوں گے، سڑکوں، ریلوے اور پلوں کا جال بچھانے والے چینی دوستوں نے جہاں انتہائی دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں اربوں ڈالر کا قرضہ دیا، وہاں جرائم کے جدید ترین طریقوں سے بھی روشناس کرا رہے ہیں۔

یہ سوال مت کیجئے گا کہ سکھائے جانیوالے طریقے جرائم سے بچنے کیلئے ہیں یا ان میں دھنسنے کیلئے، پچھلے کچھ عرصے کے دوران جہاں چینی بھائیوں کی آمد و رفت میں اضافہ ہوا، وہاں ہمارے بہت سارے نوجوان دوستوں نے چینی لڑکیوں سے شادی کے تجربے بھی کئے جو اتنے ہی کامیاب ہوئے جتنی کامیابی سی پیک کے منصوبے کو ملی ہے۔ بس ایک ہی مشکل ہے کہ ہم نہ ان پاکستانی نوجوانوں کی نجی زندگی پر بات کر سکتے ہیں جنہوں نے چینی لڑکیوں سے شادی کی اور نہ ہی سی پیک پر کوئی تبصرہ کرسکتے ہیں کہ یہ بھی 2 ممالک کی نجی زندگی جیسا ہی تو ہے۔

کسی زمانے میں چمڑے کا اچھا اور برانڈڈ جوتا 5 ہزار روپے میں تیار ہوتا تھا، چائنا نے ہمیں 500 میں تیار کرکے دکھایا، اندھی خاتون سوئی میں دھاگا کہاں ڈال سکتی تھی، چائنا نے 5 روپے کی دیسی مشین بناکر اس کی یہ مشکل حل کردی، مگر ہم اندھے کے اندھے ہی رہے، اس اندھے پن سے اس دن پردہ اٹھا جب ایک بینک کے سیکیورٹی گارڈ نے 2 چینیوں کو بینک کے اے ٹی ایم سے کھیلتے ہوئے دیکھا اور شور مچانے کے بعد قریبی دکان داروں کے ساتھ مل کر انہیں گرفتار کروا دیا، چینی ڈاکو جو اس سے قبل بھی ہمارے بینکوں سے 11 کروڑ روپے لوٹ چکے تھے، سیکیورٹی گارڈ کی بہادری اور حاضر دماغی کی وجہ سے گرفتار ہوگئے، جس سے پولیس اور شہریوں کا یہ دعویٰ بھی غلط ثابت ہوا کہ بینکوں میں ڈیوٹی پر مامور سیکیورٹی گارڈ بندوق چلانے یا چیخنے چلانے کی صلاحیت سے قاصر ہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ اس سیکیورٹی گارڈ کی غیرت نے یہ گوارا نہیں کیا کہ ملکی ڈاکوﺅں کے ہوتے ہوئے کوئی غیر ملکی ڈاکو ہمارے بینکوں میں ڈاکے ڈالے، چینی بھائیوں کی بینک ڈکیتوں کی وجہ سے ہمارے علم میں جو اضافہ ہوا اُس کیلئے بھی ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس سے قبل ”اسکمنگ“ کا مطلب صرف بالائی اتارنا یا سیال مادے پر جمی تہہ ہٹانا تھا مگر انہوں نے چند دنوں کی محنت اور چند کروڑ روپے وصول کرنے کے بعد ہمیں اس کے نئے معانی و مطالب سے روشناس کروایا ہے۔

CHINA

Bank

looting

Faud

Skimming

Tabool ads will show in this div