ایک دن زینب کےگھر؛تعزیت یا فوٹو سیشن

 

تحریر: ترہب اصغر

زینب کے گھر کے باہر پہنچی تو دروازے پر افتخار محمد چوہدری ایک درجن وکلا کے ہمراہ اندر جانے کے لیے اصرار کر رہے تھے۔ دروازے پر دوران تعزیت ساتھ آئے وکلا اپنے تصاویر بنانے میں مصروف نظر آئے۔ جبکہ گھر والوں سے تعزیت کے لیے آئے وکلا دکھ اور تکلیف کے الفاظ کی ادائیگی کے دوران ایک آنکھ سے ارد گرد لگے موبائل فون کے کیمروں کا جائزہ لے رہے تھے کہ ان کا فوکس کس طرف ہے ۔۔۔زینب کے گھر والوں نے تعزیت کے لیے گھر سے باہر ایک جگہ مخصوص کر رکھی لیکن اصرار بڑھا تو والد انہیں اندر لے گئے۔ گھر کے اندر وکلا کے فوٹو سیشن کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گیا۔۔۔

 ڈرانگ روم سے باہر نکلتے ہی مذیبی جماعت کی چند خواتین جو کہ آئی تو تعزیت کے لیے تھیں لیکن ان کا انداز کسی سڑک پر احتجاج کی مانند دکھائی دیتا تھا ۔۔۔ ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور تصویر کا زاویہ سیدھا رکھنے کے لیے انہی میں سے ایک خاتون نے زینب کی والدہ کا چہرہ کیمرے کی جانب کردیا ۔۔۔ اور یوں "فوٹو سیشن کا آغاز ہوگیا" ۔۔۔ تصویریں بنوائیں اور چلتی بنی۔

کچھ منٹ ہی گزرے تو میڈیا نمائندگان نے ایک بار پھر زینب کی والدہ کو گیھر لیا اور انٹرویو سیشن شروع ہوگئے۔ یوں تو یہ میڈیا کا کام ہے اور وہ اپنی ڈیوٹی کر رہے تھے لیکن کچھ اختلافات ایسے سوالوں سے تھے جن سے وہ زینب کے والدین کا دکھ ناپنا چاہ رہے تھے۔

جمعے کا وقت ہوا تو لوگوں کے ہجوم کو گھر سے باہر بیھجا گیاجس دوران تھکی ہاری زینب کی ماں نے چند لمحے آرام کیا اور والد نے کھانا کھایا۔ لیکن گھنٹہ گزرتے ہی ڈرانگ روم میں سجائے سرکاری ٹی وی کے سیٹ اپ پر والد کو کھنچ کرلےجایا گیا۔ یہاں انٹریو ختم ہوا اور وہاں حکومتی جماعت کی ایم این اے اور ایم اپی اے پہنچ گیئں جن ساتھ موجود انکے سیکٹری کو اسپیشل انسٹرکشن پر تصوریں بنانے کا کہا گیا اور یوں پھر فوٹو سیشن کا آغاز ہو گیا۔

انکی موجودگی میں ہی تبدیلی کا نعرہ لگانے والی چند خواتین میک اپ کی بھرمار،انچی ہیلوں اور پرنڈیڈ کپڑے پہنے پہنچیی؛ جس پر میرے ساتھ بیٹھےزینب کے ننے کززنز نے معصومیت  کے ساتھ  سوال کیا۔۔۔۔۔ کہ کیا یہ آنٹیاں شادی پر آئی ہیں؟ جس کا میرے پاس تو کوئی جواب نہیں تھا۔  ان خواتین نے ڈارنگ روم میں جانے سے انکار کیا کہ پہلے انکی سیاسی حریف چلی جائیں پھر وہ تعزیت کریں گیں )یعنی کہ فوٹو بنوائیں گی( زینب کی والدہ اور بہن بھائیوں تو بلوایا گیا اور ساتھ بیٹھا کر پہلے تصوریں بنوا کر اپنے پہنچنے کا ثبوت پیدا کرلیا۔۔۔ ان خواتین کا فوٹو سیشن سب سے زیادہ طویل تھا جس نے شاید انہیں تو نہیں لیکن باقی دیکھنے والوں کو تھکا دیا۔

اس علاقے میں انسانیت کا پرچار کرنے والوں کی کمی نہیں تھی یہ تو زینب کے گھر کے اندرونی مناظر تھے لیکن ایک فوٹو سیشن گھر سے باہر بھی چل رہا تھا جس میں  سیاسی جماعتوں کے لوگ شامل تھے۔ صبح سے رات تک جاری رہے والے اس فوٹو سیشن نے مجھے یہ تحریر لکھنے پر مجبور کر دیا اور ہماری ہمدردی پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ آخر میں اس بات سے پردہ بھی اٹھانا چاہوں گی کہ زینب کے گھر والے اب تک اس جدوجہد میں پھنسے ہوئے ہیں کہ کوئی بھی ان کا سیاسی فائدہ نا اٹھائے لیکن کچھ جماعتیں اس میں بھی کافی حد تک کامیاب ہوئی ہیں۔ جس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب  زینب کے والد کی جانب سے انکے کینیڈا سے تعلق رکھنے والے روحانی پیشوا کے کچھ کارکنوں نے میڈیا تک یہ غلط خبر پہنچائی کہ زینب کے گھر والوں نے  نواز شریف اور مریم نواز سے ملنے سے انکار کیا ہے جس کی تردید زینب کے والد نے میڈیا پر کردی۔

JusticeForZainab

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div