ننھے فرشتوں کا تحفظ کیسے ہو؟
۔۔۔۔۔** تحرير : محمد لقمان **۔۔۔۔۔
لاہور سے ايک گھنٹے کی مسافت پر واقع قصور شہر ميں بچوں کے ساتھ ہونے والے حاليہ واقعات نے پاکستان بھر ميں عدم تحفظ کا احساس بڑھا ديا ہے، 8 سالہ زينب کے ساتھ زیادتی اور بعد اس کے بہیمانہ قتل کے بعد والدين اپنی اپنی زينب کی سلامتی کے بارے پريشان ہوچکے ہيں۔
قصور ميں بچوں کے ساتھ ظلم و زيادتی کا یہ پہلا واقعہ نہيں، پاک۔بھارت سرحد سے صرف 18 کلو ميٹر کے فاصلے پر واقع اس شہر ميں ايک سال ميں 12 واقعات ہوچکے ہيں، جن ميں زيادہ تر واقعات ميں ملوث مجرموں کی نہ تو نشاندہی ہوئی ہے اور نہ ہی سزا ملی ہے، حال ہی میں جاری ہونے والی ايک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ايک سال کے دوران پاکستان ميں 4139 بچے کسی نہ کسی طور جنسی زيادتی کا نشانہ بنے۔
ان ميں پنجاب سے تعلق رکھنے والے بچوں کی تعداد 2676، سندھ کے 987، بلوچستان کے 166، اسلام آباد سے 156، خيبر پختونخوا سے 141، آزاد کشمير سے 141 اور گلگت بلتستان سے 4 بچے تھے، بچوں کے ساتھ زیادتی میں ملوث افراد ميں خاندان کے قریبی افراد بھی شامل تھے، اجنبی بھی، گويا کہ دور حاضر ميں بچوں کو محفوظ رکھنے کیلئے ہر سطح پر احتياط لازم ہے۔

آج سے تقريباً 37 سال پہلے 1981ء ميں لاہور ميں ايک بچے پپو کو 3 اوباش نوجوانوں نے زيادتی کا نشانہ بناکر قتل کرديا، پپو کے قتل کی خبر اخبارات ميں آئی تو پوری قوم قاتلوں کو سزا کیلئے يک زبان ہوگئی، فوجی حکمران ضياء الحق کا دور تھا، قاتلوں کی کھوج لگائی گئی، انہیں گرفتار کيا گيا اور سرعام لاہور شہر کے ايک چوک ميں مجرموں کو پھانسی دی گئی، يوں ہر ممکنہ مجرم کو احساس ہوگيا کہ بچوں کے ساتھ ظلم کيا تو جان جائے گی، پپو کے قاتلوں کو سر عام سزا ملنے سے ايک دہائی تک بچوں کا نہ اغواء ہوا اور نہ ہی زيادتی کا واقعہ۔
قصہ مختصر جب مجرم کو قرار واقعی سزا ملے تو جرم بھی نہيں ہوتا مگر اس کے بعد جب بھی جرم ہوا تو سزا نہيں ہوئی، کوئی نہ کوئی بہانہ کر مجرم کو چھوڑ ديا، يہي وجہ ہے کہ پچھلی ايک دہائی ميں بچوں کے ساتھ زيادتی کے واقعات ميں ہر سال 10 فيصد تک اضافہ ہوتا رہا، ہر بار لوگ سڑکوں پر آتے ہیں، توڑ پھوڑ کرتے ہیں، مگر نہ مجرم پکڑے جاتے ہیں اور نہ سزا ملتی ہے۔ اب تو ڈی این اے کے ذریعے بھی مجرم کی نشاندہی ہوسکتی ہے مگر جب انتظامیہ، حکومتی مشینری اور سیاسی قائدین میں سے کوئی اپنی ذمہ داری کو پوری کرنے کو تیار ہی نہ ہو تو کیسے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں، حکومت اور پولیس کی تو واقعات کو روکنے کی ذمہ داری ہے۔

مگر معاشرہ خصوصاً والدین بھی اپنے فرائض پورا کرتے نظر نہیں آتے، پرانے وقتوں میں اگر والدین تھوڑی سی سستی دکھاتے تھے، تو دادا دادی سمیت گھر کے بڑے بچوں کے آنے جانے پر نظر ضرور رکھتے ہیں، مغرب کی تقلید میں پاکستان میں خاندانی نظام ٹوٹا تو بڑوں کا کردار بھی کم ہوگیا، جس کے نتائج اب نظر آنے شروع ہوگئے ہیں، معاشرے کے کمزور طبقات خصوصاً بچوں اور خواتین پر تشدد کے واقعات بڑھ گئے ہیں، ان حالات میں صرف حکومت پر ہی انحصار کرنے کی بجائے والدین اور گھر کے بڑوں کو بچوں کو معاشرے میں ممکنہ خطرات کے بارے میں بتانا ہوگا۔
بڑوں کیلئے ضروری ہے کہ بچوں کو تربیت دیں کہ ہر ملنے جلنے والے پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے، کوئی خطرہ محسوس کریں تو فوراً والدین یا بڑوں کو بتائیں، تعلیمی اداروں میں ابتدائی تعلیم کے دوران ہی بچوں کو برے حالات سے بچنے کی تربیت دی جائے، اس کے بعد ہی اگر کوئی ایسا واقعہ ہوجاتا ہے تو ریاست اپنا کردار ادا کرے، پکڑے جانے والے مجروں کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی بچوں کے ساتھ زیادتی کی جراٴت نہ کرے۔