بیٹیاں اور بیانات
قصور ميں پامال کي گئي ننھي پري ہماري بيٹي تھي۔ بيٹي تو خود محبت کا دوسرا نام ہے، پھر کوئي اور نام کيوں ليا جائے ،کيا ضرورت ہے۔ دوروز ميں قصور والي بيٹي سے ہمدردي کےليے پورا پاکستان سڑکوں پر امڈ آيا ہے۔ ايسے ميں کچھ رہنما بھي بيانات کي پٹاري کھول کر وہي گھسے پٹے جملے ليے بازار ميں آگئے ہيں۔کچھ بيانات ميں بيٹي کےنام کي جگہ لفظ "بيٹي" لکھ کرديکھ ليں کاروبار سياست کا اہم راز سمجھ جائيں گے۔
بيٹي جب درندوں کے چنگل ميں تھي تو حکمران کہاں تھے"۔ ترچھي ٹوپي والے لالہ کا يہ سوال ان کے گلے ميں ہي گھٹ کر رہ جاتا ۔ اگر دير سے قصور کے راستے ميں ڈيرہ اسماعيل خان بھي پڑتا ۔ کاش جرگے کے فيصلوں کا شکار وہاں کي بيٹي اور اس کےخاندان کو بھي کوئي انصاف دلاتا۔ کاش خٹک صيب سے بھي کوئي استعفيِ مانگنے والا ہوتا۔
"بيٹي کوانصاف دلانا وزيراعليِ پنجاب کےليے بڑا چيلنج ہے "
يہ بيان دينےوالے کراچي کے خواجہ صاحب خود کئي چيلنجز سے بخوبي نمٹ چکے ہيں۔ بارہ مئي ، بلديہ فيکٹري کيس کو تو چھوڑيں ۔ اب سے ايک برس قبل اورنگي ٹاون ميں بھي ايک بيٹي اسي طرح درندگي کا شکار ہوئي تھي، اس کے والدين کو انصاف دلانے کا چيلنج پورا کرکے جو ٹرافي خواجہ صاحب کو ملي ہے۔ وہي چھوٹے مياں صاحب کو دينے کيلئے يہ بيان ديا ہے انہوں نے
"بيٹي کے واقعے کو بھول نہيں سکتے" اسمبلي ميں ايسا کہنےوالےسندھ کےسينئر وزير شايد اس بيٹي کو بھول گئے جسےشادي سے انکار پر رات کےاندھيرے ميں گھر ميں گھس کر قتل کرديا گياتھا اور بااثرمجرم اب تک اس کےخاندان کودھمکياں دے رہاہے۔
"سانحہ قصور انتہائی المناک واقعہ ہے" کہنےوالے جيالے ليڈر اور"دل ٹوٹ گيا ہے" کہنے والي ان کي بہن کو شايد لاڑکانہ کي بيٹي کي خبر ٹوئٹر کےذريعے نہيں پہنچي جسے اسي طرح زيادتي کانشانہ بناکر قتل کردياگيا تھا اور لاش اسپتال سے گھر لےجانے کےليے ايمبولنس بھي دستياب نہيں تھي ۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے پچھلے سال کے دل دہلادينےوالے اعداد و شمار پيش کيےہيں ۔ سال ميں پانچ سو سےزائد ريپ اور۔۔دوسو انتيس گينگ ريپ کيسز رپورٹ ہوئے۔ کسي کيس ميں رشتے دار ،کسي ميں استاد،اکثر ميں پڑوسي اورمحلے دار ملوث تھے۔ مگر معاشرہ ہر کيس ميں سوفيصد ذمہ دار ہے۔ اور معاشرے کي بہتري ميں ناکام سياسي قائدين برابر کےحصہ دار