صحافی انصار عباسی نے گزشتہ دنوں ہونے والے عورت مارچ کے نعروں اور پلے کارڈ کے خلاف بدھ کی رات ٹوئٹر پر متعدد ٹوئٹس کیں تھیں، یہ ٹوئٹس اس وقت سامنے آئیں جب پہلے سے ہی سوشل میڈیا پرعورت مارچ کی منتظمین کے خلاف ایک مہم جاری تھی۔
انصار عباسی کی ٹوئٹ یہ تھی
میں وہ بیان نہیں کر سکتا جو کچھ عورت مارچ میں کیا گیا لیکن ایک بات طے ہے کہ حکومت کو عورت مارچ پر نہ صرف پابندی لگانی چاہیے بلکہ ذمہ داروں کو فوری گرفتار بھی کرنا چاہیے۔ @ImranKhanPTI @Ali_MuhammadPTI @ShaikhRasheed https://t.co/Vna063QMaU
— Ansar Abbasi (@AnsarAAbbasi) March 10, 2021
انصار عباسی نے اپنی ٹوئٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ ’سوشل میڈیا میں عورت مارچ کے حوالے سے کچھ انتہائی خطرناک مواد سامنے آیا ہے، میری حکومت پاکستان اور سندھ گورنمنٹ سے درخواست کہ اس معاملہ کی تحقیق کی جائے اور اگر یہ سچ ہے تو ذمہ داروں کو فوری گرفتار کیا جائے‘۔
لیکن انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ آخر خطرناک مواد کیا تھا تاہم انہوں نے نے چند ٹوئٹس کے حوالے سے کہا کہ مارچ میں توہین رسالت کی گئی ۔
ہم نے مارچ کے خلاف کچھ لوگوں کے دعووں پر فیکٹ چیک کیا تو انہیں غلط پایا ۔
شرکاء نے فرانسیسی پرچم نہیں لہرایا
کچھ لوگوں نے ٹوئٹر پر یہ دعوی کیا کہ عورت مارچ کے شرکاء نے فرانسیسی پرچم تھامے ہوئے تھے اورانہیں ’غیر ملکی ایجنڈا‘قرار دیا۔
فرانسیسی پرچم میں نیلے ، سفید اور سرخ رنگ کی پٹیاں ہیں جبکہ عورت مارچ کے شرکاء نے سرخ ، سفید اور جامنی رنگ کی پٹیوں پر مبنی جھنڈے اٹھا رکھے تھے جو ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کا پرچم ہے یہ تنظیم مختلف شہروں مارچ منعقد کراتی ہے۔
The WDF flag represents grassroots feminism in Pakistan and has nothing to do with the French flag. We, at WDF, stand against all forms of imperialism and the accusation that we would ever wave the flag of a former colonial power is ridiculous. pic.twitter.com/oZIjDB8XGu
— Women Democratic Front #AuratAzadiMarch2021 (@wdf_pk) March 10, 2021
وہاں توہین رسالت نہیں کی گئی
بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے حوالے سے ایک پلے کارڈ کی ایک تصویر وائرل ہوئی لیکن کچھ ٹوئٹر صارفین نے اسے توہین آمیز قرار دیا۔تاہم عورت مارچ نے واضح کیا ہے کہ یہ ایک پلے کارڈ تھا جسے لاہور کی ایک خاتون کی جانب سے لکھا گیا تھا جن کو 9 سال کی عمر میں 50 سالہ قاری کی صاحب کی طرف سے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ۔ واقع پر خاتون خاموش رہیں لیکن قاری کی آواز ابھی تک آزان کی صورت میں سنائی دیتی ہے ۔
عورت مارچ جنسی ہراسانی اور تشدد کے متاثرین کے ساتھ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ @AuratMarch #AuratMarch2021 pic.twitter.com/HoUMzKImJI
— Aurat March – عورت مارچ (@AuratMarchKHI) March 10, 2021
وہاں توہین آمیز نعرے نہیں تھے
ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں عورت مارچ کی شرکاء نعرے لگارہی ہیں لیکن ان اس ویڈیو کے سب ٹائٹلز غلط تھے ۔بعدازاں عورت مارچ کی انتظامیہ نے اصلی ویڈیو شیئر کی جس میں خواتین ظلم کرنے والی قوتوں سے آزادی مانگ رہی ہیں۔
جب آزادی کے نعرے گونجے:
— Aurat March – عورت مارچ (@AuratMarchKHI) March 10, 2021
ماہی گیر کا نعرہ، ڈاکٹر کا نعرہ
سندھی کا نعرہ، بلوچ کا نعرہ
پشتون کا نعرہ، گلگت کا نعرہ
پنجاب بھی مانگے، یہ سندھی مانگے آزادی
بلوچ بھی مانگے آزادی
پشتون بھی مانگے آزادی
ہر عورت مانگے
ہر مزدور مانگے آزادی
کسان مانگے آزادی
ہر بچہ مانگے آزادی pic.twitter.com/dWPNA2CZJR
غلط سب ٹائٹلز میں “انصار” اور “اوریا” کو کچھ اور سمجھ کر سب ٹائٹلز لکھا گیا۔ کیونکہ یہاں صحافی انصار عباسی اور کالم نویس اوریا مقبول جان کی بات ہورہی تھی جہیں اکثر ٹی وی شوز میں ان کے خیالات پر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن کی جانب سے ہر سال عورت مارچ پر تنقید کیا جاتا ہے اور الزام لگایا جاتا ہے کہ اس کے منتظمین غیر ملکی اور اسلام مخالف ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔تاہم انہوں نے ابھی تک اپنے الزامات کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا ہے۔
انصار عباسی نے ٹویٹس پر مبنی الزامات عائد کرتے ہوئے عورت مارچ پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن لاہور ہائیکورٹ نے پچھلے سال ٹھیک اسی طرح کی ایک درخواست کو خارج کردیا تھا۔
Just to add, you cannot ban Aurat March. They tried to ban it last year through petitions, the Lahore and Islamabad High Courts DISMISSED THEM and said that it is our constitutional right to march. Are you against the constitution? https://t.co/RojPVAaJle
— main aap ki behan nahin (@shmyla) March 11, 2021
انصارعباسی نے حکومت اور ایف آئی اے سے مارچ کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا،جس پر ڈیجیٹل رائٹس اکسپرٹ فریحہ عزیز نے پوچھا کہ ایف آئی اے کو کسی چیز کی تحقیقات کے لئے وفاقی حکومت کو کس اختیار کا کہنا ہے۔
Here no “freedom with responsibility” otherwise prescribed for others? Freedom to spread false & misleading info giving rise to false blasphemy accusations, which can result in violence? For this no qualification of speech rights & accountability demanded.https://t.co/YyTfg6O3kS
— Farieha Aziz (@FariehaAziz) March 11, 2021
تنقید اور معافی مانگ کے لیے عورت مارچ کے مطالبے کے بعد انصار عباسی نے کہا کہ انہوں نے کوئی ’جعلی‘ اور ’گھناؤنا‘مواد شیئر نہیں کیا۔
Firstly, I didn’t share any “fake” & “heinous” content, instead demanded of the Govt to probe what was being widely spread thru the social media. Secondly in my view Aurat March should be banned for the reasons given in my column published today. https://t.co/NfUz4iz4th https://t.co/fdRugMNepB
— Ansar Abbasi (@AnsarAAbbasi) March 11, 2021
اس حوالے سے سماجی رہنما جبران ناصر نے انصارعباسی سے ایک ٹوئٹ میں پوچھا کہ وہ غیر تصدیق شدہ ویڈیوز کس طرح شیئر کرسکتے ہیں جبکہ بصورت دیگر وہ تفتیشی صحافی ہونے کے ناطے’بند کمروں میں ہونے والی سرگوشیوں‘ کے بارے میں اطلاع دے سکتے ہیں۔
اور اگر یہ جھوٹ ہے تو کیا کیا جائے؟ آپ سینئر صحافی ہیں بند کمروں کی سرگوشیاں بھی رپورٹ کر دیتے ہیں مگر یہاں کھلے میدان میں لگنے والے نعروں کی تحقیق کئے بغیر آپ نے گرفتاری اور پابندی کے مطالبات کرنا شروع کردیئے۔ اسی لئے عورتیں ایسی صحافت اور ایسے صحافیوں سے آزاری مانگ رہی ہیں۔ https://t.co/CO7MTVvRmX
— M. Jibran Nasir (@MJibranNasir) March 11, 2021