چین کے وزارت خارجہ کے ترجمان لیجیان ژاؤ کی جانب سے امریکا پر الزام کے بعد چینی سفیر کو احتجاجا طلب کرلیا گیا۔
مائیکرو بلاگنگ سائٹ پر چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لیجیان ژاؤ نے کہا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ امریکی فوج نے ووہان میں کرونا وائرس پھیلایا ہو۔
2/2 CDC was caught on the spot. When did patient zero begin in US? How many people are infected? What are the names of the hospitals? It might be US army who brought the epidemic to Wuhan. Be transparent! Make public your data! US owe us an explanation! pic.twitter.com/vYNZRFPWo3
— Lijian Zhao 赵立坚 (@zlj517) March 12, 2020
This article is very much important to each and every one of us. Please read and retweet it. COVID-19: Further Evidence that the Virus Originated in the US. https://t.co/LPanIo40MR
— Lijian Zhao 赵立坚 (@zlj517) March 13, 2020
ترجمان چینی وزارت خارجہ نے امریکی مشیر سلامتی کے بیان کے ردعمل میں کہا تھا کہ امریکی فوج ہی شاید ووہان میں کرونا وائرس لائی تھی۔ اپنے ٹویٹ میں ترجمان نے کہا کہ شفافیت کا فقدان امریکا میں ہے ، چین میں نہیں۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ اوبرائن نے الزام لگایا تھا کہ چین نے کرونا وائرس پر ردعمل میں سستی کا مظاہر کیا، جس کی گزشتہ ماہ سے دنیا قیمت ادا کر رہی ہے، حالانکہ ووہان میں اس وائرس کی نشاندہی ایک سال قبل ہوگئی تھی۔
امریکا نے چینی ترجمان کے بیان پر امریکا میں تعینات چینی سفیر کو کرونا وائرس سے متعلق الزام لگانے پر طلب کیا۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی سفیر برائے ایشیا ڈیوڈ اسٹل ویل نے امریکا میں تعینات چینی سفیر سووئی ٹی انکائے کو طلب کر کہ چینی ترجمان کے بیان پر برہمی کا اظہار کیا۔
امریکی محکمہ خارجہ نے بیان میں چینی حکومت کو عالمی وبا پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ الزام تراشی کا مقصد چینی حکومت پر تنقید سے توجہ ہٹانا ہے۔ بیان میں امریکا کی جانب سے چین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ امریکا اس قسم کے بیانات برداشت نہیں کرے گا۔
وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ چین کا “کانسپری تھیوری” پھیلا رہا ہے جو خطرناک اور مضحکہ خیز ہے۔
امریکا میں کرونا وائرس سے ہلاکتوں کے بعد صدر ڈونلد ٹرمپ نے ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے متعلقہ اداروں کو 50 بلین ڈالر فراہم کیے جائیں گے۔
صدر ٹرمپ نے ہنگامی حالات کا اعلان کرتے ہوئے اسٹیفورڈ ایکٹ نافذ کیا ہے جس کے تحت ریاستی حکومتوں کو انسانی جانیں اور املاک محفوظ بنانے کے لیے وفاق مدد فراہم کرے گی۔
اسٹیفورڈ ایکٹ کا نفاذ
امریکی کانگریس کی جانب سے سال 1988 میں پاس کیے گئے اسٹیفورڈ ایکٹ کے تحت مقامی حکومت اور ریاستوں کی مدد کے لیے وفاقی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ اس امداد کے ذریعے ریاستوں کو بڑے حادثات مثلاً ہری کین، زلزلوں، لینڈ سلائیڈز، سیلاب، سونامی اور آگ لگنے جیسے واقعات سے نمٹنے میں مدد ملتی ہے۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے متعلقہ اداروں کے سربراہوں کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ صرف وفاقی حکومت ہی وبا سے نمٹنے میں ضروری معاونت فراہم کر سکتی ہے۔
.@realDonaldTrump‘s emergency declaration allows for a “massive mobilization of our country’s resources to combat this terrible virus. And the flexibilities we’re offering will be a godsend to the providers, clinicians, and facilities on the front lines of this fight.”– @SeemaCMS pic.twitter.com/YZ90CbPHXm
— Ronna McDaniel (@GOPChairwoman) March 14, 2020
ٹرمپ نے اپنی ہدایات میں نیشنل ایمرجنسیز ایکٹ کی کچھ شقوں کا حوالہ بھی دیا ہے جو وزیر صحت اور انسانی خدمات کے اختیار میں اضافے سے متعلق ہیں۔
اسٹیفورڈ ایکٹ کے تحت فیڈرل ایمرجنسی مینجمنٹ ایجنسی (فیما) ڈیزاسٹر ریلیف فنڈ میں مالی امداد کا اضافہ کر سکتی ہے۔
بدھ کو 36 ڈیموکریٹک سینیٹرز کی جانب سے امریکی صدر کو لکھے گئے خط میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ملک میں 2،000 سے زائد افراد کو متاثر کرنے اور 47 اموات کی وجہ بننے والے کرونا وائرس کے پھیلاؤ سے متعلق وسائل فراہم کیے جائیں۔
سینیٹرز کے مطابق “ریاستی اور مقامی نمائندے وبائی صورت حال کے مقابلے اور امریکا کو محفوظ رکھنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں، ایسے میں وفاقی وسائل بروئے کار لاتے ہوئے مقامی کوششوں کو تقویت مل سکتی ہے۔
یہ فنڈ مختلف مقاصد مثلاً ٹیسٹنگ، تشخیص، علاج اور مانیٹرنگ، طبی آلات اور عارضی پناہ گاہوں کے قیام کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
وفاقی ادارے 75 فیصد اخراجات مہیا کریں گے، جب کہ باقی 25 فیصد کی فراہمی ریاستوں کی ذمہ داری ہوگی۔