ابھی موبائل پر ٹیکس دریافت کئے کچھ ہی دن گزرے ہوں گے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات پر بے تحاشا ٹیکسوں کے اطلاق کے معاملے پر وزارت پیٹرولیم اور دیگر متعلقہ اداروں سے وضاحت طلب کر لی گئی۔سپریم کورٹ کے مطابق عالمی مارکیٹ کے ساتھ حکومت قیمتیں کم نہیں کرتی۔ حکومت ایک چارٹ بنا کر دے کہ پیٹرولیم مصنوعات پر کتنے قسم کے ٹیکسوں کا اطلاق ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا فرانزک آڈٹ کروائیں گے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بنچ نے 9 مئی کو پیٹرولیم مصنوعات پر عائد کئے جانے والے متعدد ٹیکسوں کے حوالے سے از خود نوٹس کی سماعت کی ۔ایسے میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پیٹرولیم مصنوعات پر پچیس فیصد ٹیکس لگتا ہے، جب بھی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہوتی ہیں تو عوام کو ریلیف دینے کی بجائے پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس لگا دیا جاتا ہے۔یہ قانون کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔
چلیں عدالت تک بات جا پہنچی ہے تواب سب کی نگاہیں یقیناًوہیں پر رکیں گی جہاں سے سائل انصاف چاہتے ہیں۔ سوموٹو ایکشن اگر عوامی مسائل پر ہو رہے ہیں تو ایک بات تو واضح طور پر دیکھنے میں آرہی ہے کہ اسے عوامی تائید بھی مل رہی ہے۔
عدالتی کارروائی کا حال جو اخبار کی زینت بنا وہ تو آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے اب کچھ اس کے محرکات پر بھی بات ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو دیکھیں گے کہ کیا آیا یہ صرف ایک ہی حکومت کا کام ہے یا جو بھی حکومت آتی ہے وہ پیٹرول کی قیمتوں کے ساتھ یکساں سلوک کرتی ہے۔
نگاہ جب تلاش کرتی ہے تو مقام حیرت میں خود کو ڈوبا پاتی ہے کہ کسی حکومت میں تو کوئی فرق رہ گیا ہے ۔ عجب سی بات لگتی ہے کہ پر حکومت ٹیکسوں کے معاملے میں بیوروکریسی یا نوکر شاہی کے مشوروں کے روگردانی کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ یہ شاہی بابو جو اصل میں حکومت چلاتے ہیں، بڑے ہی بے مروت واقع ہوئے ہیں۔ ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا انہیں ٹیکسوں تلے دبے سسکتے انسان نظر نہیں آتے۔
اس کا جواب اور کچھ نہیں سوائے اس کے کہ نوکر شاہی کو تو سرکاری گاڑیاں اور پیٹرول ملتا ہے اور نہ جانے کیا کیا ان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ ہر حکومت ان کے ہنر کی محتاج ہوا کرتی ہے۔اصل حکمران طبقہ بھی تو یہی بیوروکریسی ہی ٹھہری۔ انہیں کیا درد کیا غم کہ کیسے کیسے ٹیکس عوام کے کندھوں پر رکھ دیئے گئے ہیں۔
پاکستان ایسا ملک بن چکا ہے کہ جہاں ٹیکس پر بھی ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے ۔ موبائل فون بیلنس کے حوالے سے تو ہوشربا انکشافات سامنے آئے ہیں۔ اب پیٹرولیم مصنوعات پر بھی آپ امید رکھیں کہ بیوروکریسی کوئی ایسا جواب ضرور سامنے لائے گی کہ یہ سب تو ضروری تھا ورنہ حکومت کا نظام بیٹھ جائے گا۔ اب حکومت کے نظام کا سب سے اہم مہرہ تو بیوروکریسی خود ہے گویا وہ اپنے تہی دست ہونے کا ذکر بین الاسطور کر رہی ہے۔
کیا نوکر شاہی اور سرکار کے پر ادارے کو بڑی گاڑیاں دینا ضروری ہیں سوال یہ اصل میں یہ اٹھتا ہے۔ پھر سونے پر سہاگہ سپریم کورٹ کو اسے بھی دیکھنا ہوگا ورنہ نوکر شاہی ایسے ایسے جوابات جمع کروائے گی کہ اصل بات کہیں اور جا نکلے گی۔
سرکاری محکموں کی بڑی گاڑیاں ان کا مفت پیٹرول، بعد از ریٹائرمنٹ پنشن سب ان ٹیکسوں سے ہی نکلتا ہے۔ ان سب کو بھی کنٹرول کرنا ہوگا جو بیوروکریسی کیلئے ممکن نہیں ہوگا۔ چلیں دیکھتے ہیں مزید کیا ہوتا ہے۔ امید کے برخلاف امید لگاتے ہیں۔ممکن ہے اس مرتبہ عوام جیت جائے اور اسے کچھ ریلیف مل سکے۔ سوچیے گا ضرور۔