انیس سالوں بعد ہونے والی مردم شماری کا پہلا مرحلہ25 مارچ کو مکمل ہوگیا۔ جس کے بعد 10 دنوں میں لاجسٹکس کی منتقلی کے بعد دوسرا مرحلہ 15 مئی سے شروع ہوگا اور 25 مئی تک مکمل کیا جائے گا۔ دونوں مراحل مکمل ہونے کے بعد پہلے صوبائی نتائج شائع کئے جائیں گے۔ جس کے بعد مرحلہ وار مرد و خواتین کا تناسب، دیہی و شہری کا تناسب اور خواجہ سراؤں کی تعداد کے حوالے سے نتائج جاری کئے جائیں گے۔
ملکی تاریخ کی چھٹی مردم شماری میں چند معلومات ایسی ہیں۔ جو کہ پہلے ہونے والی پانچ مردم شماریوں میں کبھی بھی اکٹھی نہیں کی گئیں۔ جن میں خواجہ سراؤں کی گنتی سرفہرست ہے۔ ملک میں نظر انداز کی جانے والی خواجہ سرا برادری کے مطابق پاکستان کے قیام کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب مردم شماری میں مخنث افراد کو علیحدہ سے شمار کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اس مردم شماری میں ملک بھر میں بولی جانے والی زبانوں سے متعلق معلومات اکٹھی کرنے کیلئے بھی ایک کالم مختص کیا گیا ہے۔ تاہم اس مردم شماری میں ملک میں بولی اور سمجھی جانے والی تقریباً 70 زبانوں میں سے صرف 9 زبانوں کو شامل کیا گیا ہے۔ جو ملک میں مقیم کئی برادریوں کے لیے مایوس کن ہے۔
پاکستان میں ہونے والی چھٹی مردم شماری ملک میں موجود اقلیتی برادری بالخصوص عیسائیوں اور ہندوؤں کی حقیقی تعداد سامنے لائے گی۔ مردم شماری کے دوران پاکستانی اپنا اندراج بحیثیت مسلمان، عیسائی، ہندو یا احمدی کے طور پر کروا سکیں گے۔ پسماندہ اور نچلی ذات کی ہندو برادری کے افراد و دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کیلئے خصوصی آپشن شیڈولڈ طبقے کا رکن بھی دستیاب ہے۔ گھروں میں بیت الخلا کی اہمیت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے مردم شماری کے دوران اس بار گھر میں موجود ٹوائلٹس کی تعداد کا بھی اندراج کیا جائیگا۔ اس سوال کو مردم شماری میں شامل کرنے کی وجہ اس لیے محسوس کی گئی کیونکہ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کی 40 فیصد آبادی کو ضروری حاجات کے لیے ٹوائلٹ میسر نہیں جو صحت کے بیشتر مسائل کی وجہ ہے۔
قومیت کی جانچ کیلئے سوالنامے میں قومیت سے متعلق دو آپشنز رکھے گئے ہیں جو کہ پاکستانی یا غیر ملکی ہوں گے۔ چھٹی مردم شماری میں جہاں کچھ نئی معلومات شامل کی گئیں وہیں چند ایسی دیگر معلومات بھی تھیں۔ جوکہ اس مردم شماری میں شامل کی جانی چاہیئے تھیں۔ مردم شماری کے آغاز سے قبل شعبہ صحت نے تجاویز بھی پیش کی تھیں کہ بیماریوں سے متعلق ڈیٹا حاصل کرنے کا بھی ایک خانہ مردم شماری میں شامل ہونا چاہیئے۔ شعبہ صحت سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اچھا ہوتا کہ اگر فارم میں ایسا خانہ شامل کیا جاتا۔ جسمیں سرطان، ذیابیطس، ہیپاٹائٹس، دل کے امراض، موٹاپے، بلڈ پریشر، امراض چشم، سانس اور پیٹ کی بیماریوں سمیت دیگر بڑی بیماریوں کا اندراج کیا جاتا تو پتہ چلتا کہ ملک میں کس بیماری کے کتنے مریض ہیں، اور اس حوالے سے حکومت اور متعلقہ اداروں کو کس طرح کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں مردم شماری کے زریعے گھر میں کمانے والے افراد کی تعداد بھی معلوم کی جاسکتی تھی۔ مردم شماری میں کسی بھی دوسرے صوبے کے شہری سے کسی اور صوبے میں رہائش پزیر ہونے سے متعلق کوئی معلومات نہیں مانگی گئیں۔ جس کی وجہ سے اکٹھی کی جانے والی معلومات میں غلطی ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
اس مردم شماری کے فارم میں یہ سوال بھی پوچھا جاسکتا تھا کہ لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے لیے کیا ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ کیا کسی گھر میں گاڑی موجود ہے۔ اگر ہے تو گاڑی کی قسم کیا ہے اور وہ اہل خانہ کی سفری ضروریات پوری کرتی ہے۔ ایسے سوالات سے حکومت کو مستقبل میں ٹرانسپورٹ سے متعلق پالیسی مرتب کرنے میں بھی آسانی ہوجاتی۔ اس اثنا میں یہ بھی پوچھا جاسکتا تھا کہ لوگوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت حاصل کرنے کے لیے گھر سے کتنے کلو میٹر کے فاصلے پر پبلک ٹرانسپورٹ ملتی ہے۔ یہ معلومات بھی حاصل کی جا سکتی تھیں کہ دور دراز علاقوں میں سفری سہولیات کے لیے کیا ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں۔