پانچ سالہ بیٹے نے اسکول سے آتے ہی ہاتھ میں سرکولر تھما دیا جس پہ ہدایت دی گئی تھیں کہ اگلے ماہ سے آنے والے دو ماہ کی فیس ایڈوانس میں لی جائے گی اور ساتھ ہی سالانہ فنڈ جو کہ دو ماہ کی فیس کے برابر ہی ہوتا ہے وہ بھی ادا کرنا ہے اور نا مکمل ادایئگی کی صورت میں سالانہ امتحانات کا نتیجہ نہیں دیا جائے گا۔
ویسے تو ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں میں یہ کوئی نئی بات نہیں خاص کر پرایئوٹ اسکول میں اگر بچہ کو داخل کرا دیا جائے تو بس پھر آپ اپنی زندگی کی باقی ضروریات بھول جائیں کیونکہ ایک نارمل آمدنی والے انسان کی آدھی سے زیادہ آمدنی اپنے بچوں کی تعلیم کی تکمیل میں ہی صرف ہو جاتی ہے۔ آج کے دور کے سرکاری اسکولوں کے حال سے کون واقف نہیں،جہاں بچے کو داخل کرانے کا مطلب ہے اس کا وقت برباد کرنا تو چار ونا چار بچے کو پرایئوٹ اسکول میں ہی داخل کرانا پڑتا ہے۔ جہاں بچے کا اسکول میں پہلا قدم رکھنے سے پہلے ہی والدین کو ایک بھاری بھرکم ادائیگی سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلے داخلے کی اپلیکیشن کے ساتھ فیس دیجیے، پھر ٹیسٹ کے نام پہ رجسٹریشن فیس دیجیئے ، ایڈمیشن کنفرم ہونے کی صورت میں ایڈمیشن فیس اور آنے والے پانچ ماہ کی فیس ایڈوانس ادا کریں اور سالانہ چارجز بھی ساتھ ادا کریں تب کہیں جا کے آپ کا بچہ اسکول میں پہلا قدم رکھ پائے گا۔دیگر اخراجات میں کتابیں، یونیفارم ،ٹرانسپورٹ کا خرچہ شامل ہے۔
مفاد پرست لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ اب اگر سرمایہ کاری کرنی ہے یا کوئی کاروبار شروع کرنا ہے تو پرائیوٹ اسکول کھولنے کو کمائی کا بہترین ذریعہ سمجھتے ہیں۔جس کے لئے زیادہ جھنجٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایک گھر کرائے پہ لیا جاتا ہے۔ کرسیاں لگا دیں ، دیوار پہ کالا رنگ کر دیں ، بورڈ میں رجسٹریشن کرائیں ، اسکول تیار۔ اسکول کی دیواروں پہ زبردست قسم کی پینٹنگز بنا دی جاتی ہیں۔ کلاس رومز کو رنگ برنگے کاغذوں سے اور ڈراینگز سے بھر کے والدین کے لئے اٹریکشن پیدا کی جاتی ہے۔جہاں نا قابل اساتذہ بھرتی کر لیے جاتے ہیں جو کہ فل الحال خود اپنی تعلیم مکمل کر رہے ہوتے ہیں یا ایسے ہوتے ہیں جو کہ ایکسٹرا خرچہ پورا کرنے اور ٹائم پاس کرنے کے لئے اسکول کی نوکری کو ترجیح دیتے ہیں۔ اکثر پرایئوٹ اسکول کی ٹیچرز دیکھ کے احساس ہوتا ہے گویا جو روزانہ جتنا سج سنور کے آئے گا اتنا ہی اس کو پڑھا لکھا سمجھا جائے گا اور اس کی تنخواہ میں جلدی جلدی انکریمنٹ دیا جائے گا۔ اکثر مشہور اورناموراسکولوں کی برانچز بھی ہوتی ہیں ،ایک اسکول ہونے کے باوجود برانچز کے تعلیمی ماحول میں فرق ہوتا ہے مثلاً کراچی برانچ کی تعلیمی کارکردگی نوابشاہ سے مختلف ہوگی۔ یا گلشن اقبال اور کورنگی برانچ کے ماحول میں فرق ہوگا۔ اس سلسلے میں بھی والدین کو داخلے سے پہلے پوری چھان بین کرنی پڑتی ہے۔
جب کہ زیادہ تر پرایئوٹ اسکولوں میں تعلیم کا معیار یہ ہے کہ کتابوں میں جوں کا توں پڑھا دیا جاتا ہے یا زیادہ فوکس انگریزی جملے رٹوانے پر ہوتا ہے۔ پرائمری سیکشن کے بچوں کے ہاتھ اور منہ پہ روزانہ مارکر سے اسٹار بنا کے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ آج بچے پہ اسکول میں خصوصی توجہ دی گئی۔سلیبس سے ہٹ کے کچھ پڑھانا یا سمجھانا ٹیچر کی شان کے خلاف ہوتاہے۔ سیکنڈری کلاس کے طالبعلموں کا اکثر حال یہ ہوتا ہے کہ اگر یاد کی گئی درخواست یا مضمون کے علاوہ کسی نئے عنوان پہ لکھنے کو بول دیا تو بس قلم لے کے سال ہی گزر جائیں گے اورطالبعلم سوچتا رہ جائے گا کہ شروع کہاں سے کروں۔
ایک طالبعلم کی بنیاد ہی اسکول سے شروع ہوتی ہے اگر اسکول میں تعلیمی معیار پست ہوگا تووہ طا لبعلم یونیورسٹی لائف میں بھی بہتر کارکردگی نہیں دکھا پائے گا اور جس کا اثر براہِ راست اس کے کیرئر پہ پڑے گا جس سے اس کی زندگی کے سارے مسائل وابستہ ہوتے ہیں۔ بیشترپرایئوٹ اسکولوں میں تربیت کی طرف کم دھیان دیا جاتا ہے۔ جبکہ درسگاہ کا اصل مقصد جو کچھ کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے اس پہ عمل کروانا اور ساتھ میں بہترین تربیت دینا ہے۔
پاکستان میں بچوں کو اچھی معیاری اور سستی تعلیم کے فروغ کی ذمہ داری حکومت کی ہے جس میں وفاقی اور صوبائی حکومت کے اہم کردار ہیں جب کہ ایسا دیکھا گیا ہے کہ اس سلسلے میں ہمیشہ سے عدم دلچسپی ظاہر کی گئی ہے۔ صرف ان کی طرف سے چھٹی کی خبر سامنے آتی ہے باقی دیگر تعلیمی معاملات میں کوئی کردار نہیں۔
پاکستای قوم کے ننھے ہونہاروں میں ذہانت اور صلاحیتیں بے شمار ہیں ، ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کے معیار کو ایک سے لیول پہ لایا جائے اور سب کے لئے یکساں اصول مقرر ہوں۔ غریب امیر سب بچے ایک سلیبس پڑھیں۔ تعلیمی حصول کی فراہمی کواتنا آسان بنایا جائے کہ والدین کے لئے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا ٹینشن کا باعث نا بنے نا کہ کاروبار سمجھ کے کلاس رومز بھرے جائیں۔ پاکستان کا مستقبل تبھی بہتر ہو سکتا ہے جب یہاں لٹریسی ریٹ اچھا ہوگا اور یہاں کے پڑھے ہوئے طالبعلم کو دنیا بھر میں کہیں بھی ویلکم کیا جائے گا۔